کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 11
اسلام کے تصورِ انتخاب، تصورِ نمائندگی، تصورِ اہلیت، اساسی جوہر، مقصد ومطلب اور بنیادی تصور ومیکانزم غرض ہر پہلو سے اسلام اورجمہوریت میں واضح تضاد پایا جاتا ہے لیکن سردست دیگر پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم صرف تصورِ اہلیت تک محدود رہیں گے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کردہ آیات واحادیث سے علم ہوا کہ اسلام کی نظر میں منصب کا تعین اہلیت کی بنا پر ہی ہوتا ہے اور کوئی خارجی بنیاد اس میں مؤثر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر تمام وجوہات مختلف لوگوں کو مناصب پر فائز تو کرسکتی ہیں لیکن معاشرے اور اجتماع کی خدمت اور ترقی کی قوی ضمانت قرار نہیں پا سکتیں اور شریعت ِمطہرہ کے نفاذ وعمل داری کی طرف بھی معاشرے کا رخ موڑنے پر قادر نہیں ہوتیں ۔
لیکن جب ہم اپنے گرد وپیش پر نظر دوڑاتے ہیں تو فی زمانہ ہمیں بے شمار ایسے اُمیدوارانِ مناصب میدانِ سیاست میں نووارد نظر آتے ہیں ، جن کی مطلوبہ منصب کے لئے اہلیت کسی سابقہ کارگزاری اور اجتماعی خدمت کی بجائے، بعض اوقات کسی مضبوط سیاسی پارٹی کی پشت پناہی ہوتی ہے، تو کوئی اُمیدوار ایک منصب کے دیوانہ وار حصول کے لئے اَن گنت مال ودولت لٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی کی قوت کا راز اس کے مضبوط خاندانی اثر ورسوخ میں پوشیدہ ہے تو کوئی عوام کو اپنی جادو اثر وعدوں سے متاثر کرکے اُن سے ووٹ مانگنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ حتیٰ کہ بعض سیاستدانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی اہم بنیاد اس کے سوا کوئی نہیں ہوتی کہ وہ بعد میں اپنے ووٹروں کے جائز وناجائز کام کروانے کے لئے بڑے مؤثر تصور کئے جاتے ہیں ۔ بعض سیاستدان صرف اس بنا پر کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ نفسیاتی ہتھکنڈوں سے بخوبی فائدہ اُٹھانے کا ہنر رکھتے ہیں یا بعض جاگیرداروں کے ووٹر اُن کو منتخب نہ کریں تو وہ امیدوار اُن لوگوں کا جینا دوبھر کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔
یہ اور اس نوعیت کی کئی دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر عوام کی رائے پر اثر انداز ہوکرموجودہ جمہوری نظام میں سیاسی رہنما عوام کے نمائندے بن بیٹھتے ہیں جو دراصل عوام کی ضروریات کے استحصال یاان کے وقتی جذبات سے فائدہ اُٹھا کردرحقیقت اپنا اُلوسیدھا کرتے ہیں ۔