کتاب: محدث شمارہ 318 - صفحہ 10
لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمومنین! نیک امیر کا تو مقصد واضح ہے، فاجر امیر کا کیا فائدہ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیاکہ اس سے اتنا فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ
یُقام بہا الحدود وتأمن بہا السُّبل ویجاہد بہ العدوّ ویُقسم بہا الفيء
’’حدود اللہ کو قائم کیا جائے گا، گزرگاہوں میں امن وامان قائم ہوجائے گا، دشمنِ اسلام سے جہاد ممکن ہوگا اور مالِ فئے کی تقسیم ہوسکے گی۔‘‘
(فتاویٰ ابن تیمیہ: ۶/۳۷۹)
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اور فرمان یہ بھی ہے کہ
’’مسلمانوں کے فرمان روا پر یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے فیصلہ کرے اور امانت ادا کرے اور جب وہ یہ کام کررہا ہو تو مسلمانوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس کی سنیں اور اس کی اطاعت بجا لائیں ۔‘‘ (کنز العمال )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان فرامین سے پتہ چلتا ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے بنیادی فرائض میں حدود اللہ کا قیام، امن وامان، ریاست ِاسلامیہ کا تحفظ اور ظلم وستم کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں اور ظاہر ہے کہ حدود اللہ کا قیام ایک شرعی تصور وضرورت ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:
﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکوۃَ ﴾… الخ
’’اگر ہم مسلمانوں کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ نماز قائم کریں ، زکوٰۃ ادا کریں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قائم کریں گے۔‘‘
مصر کے ممتاز مفکر سید قطب شہید لکھتے ہیں کہ
’’میں ان لوگوں کو غلط فہمی کا شکار سمجھتا ہوں جو کہتے ہیں کہ اسلامی نظام اصل میں اسلامی سوشلزم ہے، یا اسلامی جمہوریت ہے۔اسلام کے نظام سیاسی کے چار بنیادی اُصول ہیں : حاکمیت ِالٰہ، عدل من الحکام، اطاعت فی المعروف اور شوریٰ۔‘‘ (العدالۃ الاجتماعیۃ: ص ۹۳ تا ۱۰۱)
موجودہ سیاست سے ایک تقابل
یہ تو ہیں شریعت ِاسلامیہ کے واضح او ردو ٹوک تصورات جن کی مختصر طورپر یاد دہانی کے بعد آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ فی زمانہ ہمارے ہاں منصب واعزاز کو کس بنا پر حاصل کیا یا عطا کیا جاتا ہے اورعوام کس بنا پر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں ؟ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جمہوریت اپنی اساس، ساخت اور طریق کار ہرپہلو سے اسلام کے نظامِ سیاست سے یکسر مختلف ہے۔