کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 9
مغرب وحی والہام کی بنیادپر حاصل ہونے والے علم کو تخیل یا واہمہ Myth سے زیادہ حیثیت دینے کے روادار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایسی تحقیق کو جو وحی الٰہی کی بنیاد پر قائم ہو، دائرۂ تحقیق سے ہی خارج قرار دیتے ہیں ۔ اہل مغرب کے اس تصور کی دو زمینی وجوہات ہیں : ایک تو ان کے مذاہب میں واقعتا جو چیزیں وحی والہام کے طورپر موجود ہیں ، وہ درحقیقت تحریف شدہ اور ان کے اَحبار ورُہبان کے واہمات وتخیلات کا ہی نتیجہ ہیں ۔ اس لحاظ سے اپنے مذہب کے حوالے سے ان کا یہ رویہ بالکل درست اور منطقی ہے۔ دوسرے، اگر وہ مسلمانوں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ حقائق جو قرآن وسنت کی شکل میں ہیں ، کی مستند حیثیت کو تسلیم کرلیں تو اسلام قبول کیوں نہ کرلیں ؟ ہم مسلمانوں کا ان اِلہامی حقائق کوتسلیم کرنا تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کیونکہ قرآن کی آیت یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو دل وجان سے تسلیم نہ کرنے والا شخص مسلمان ہونے کا حقدار ہی نہیں رہتا! الغرض علم کے میدان میں مسلمانوں او رغیر مسلموں کے تصورات میں بہت سے زمینی فرق موجود ہیں ، لیکن ہمارے جدید تعلیم یافتہ مسلمان ان کو نظر انداز کرتے ہوئے مغرب کے نظریۂ علم پر ایمان لے آتے ہیں ، او ر اسلام کا نام لینے کے باوجود اپنے عمل سے یہی ثابت کرتے ہیں کہ واقعتا وہ بھی نعوذ باللہ قرآن وسنت پر مبنی علم کو واہمہ سے زیادہ حیثیت دینے کو بالکل تیار نہیں اور اس علم کے حامل لوگوں کو اس منصب و اہلیت پر فائز نہیں سمجھتے کہ وہ قوم کے اجتماعی مسائل میں رہنمائی کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ یہ تصور اورسوچ ایک مسلمان کے لئے انتہائی مکروہ اور گھناؤنی ہے…!! ٭ قرآنِ کریم تو اُنہیں ہی اہل علم قرار دیتا ہے جن کے علم کا نتیجہ اللہ پر ایمان اور اس کی خشیت کی شکل میں سامنے آئے۔ درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں : ﴿وَالرَّاسِخُوْنَ فِيْ الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ آمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا﴾(آلِ عمران:۷) ’’علم میں پختہ کار لوگ تویہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے، ہر شے تو ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔‘‘ ایسے ہی: ﴿ إِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ ﴾ (الفاطر:۲۸)