کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 8
سَوِیًّا ٭ یَا اَبَتِ لاَ تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ إِنَّ الشَّیْطَانَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا ﴾ ’’اباجان! میرے پاس وہ عِلم آیا ہے، جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ میری بات مانیں تاکہ میں آپ کو سیدھے رستے پر لے چلوں ۔ اباجان! شیطان کی پیروی مت کریں ، وہ تو ربّ کا نافرمان ہے۔‘‘ (مریم:۴۳،۴۴) اس آیت میں واضح طورپر علم کا مصداق وحی الٰہی کو قرار دیا گیا ہے، کیونکہ حضرت ابراہیم کے پاس آنے والی چیز وحی کے سوا اورکچھ نہیں تھی۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویوں خطاب فرمایا گیا اورساتھ یہ وعید سنائی گئی ہے : ﴿ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَائَہُمْ بَعْدَ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہ ِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلاَ نَصِیْر ﴾ (البقرۃ:۱۲۰) ’’اگر تو نے علم آجانے کے بعد ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ سے تجھے بچانے اور مدد دینے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ ان آیاتِ کریمہ میں عِلم کا اطلاق کسی جدید علم مثلاً سائنس و ٹیکنالوجی پر کرنے کی بجائے اس شے پر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوتی ہے یعنی ’ وحی‘! جدید مغربی علوم اور اسلامی علوم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جدید علوم انسان کے مشاہدے اور تجربے کا حاصل ہیں اور ان کا مطمح نظر انسان کے دنیوی مفادات تک ہی محدود ہے جبکہ اسلام کی نظر میں علم یوں تو مشاہدے اور تجربے سے بھی حاصل ہوتا ہے لیکن علم کی اعلیٰ اور حتمی ترین شکل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ مشاہدے کی صورت میں تو حاصل ہونے والے علم میں غلطی کا امکا ن یا بہتری واصلاح کی گنجائش برقرار رہتی ہے جبکہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم میں قیامت تک کسی کوتاہی یا غلطی کا کوئی شائبہ بھی موجود نہیں ۔یوں بھی اللہ کا عطا کردہ علم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کو بھی شامل ہے۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے برعکس غیرمسلموں کا رویہ فکری جبر اور انتہا پسندی پر مبنی ہے کیونکہ ایک طرف مسلمان ’علم‘ کے مآخذ کو مشاہدے اورتجربے سے خارج قرار نہیں دیتے لیکن علم کی اعلیٰ اور حتمی ترین شکل الہامی علم یعنی وحی کو سمجھتے ہیں ۔ یہ علم نہ صرف حتمی ہے بلکہ اسلامی اعتقاد کے مطابق مسلمان کے ایمان واعتقاد کی بھی اساس قرار پاتا ہے۔ دوسری طرف اہل