کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 77
عموماً اس وقت مدارس میں صحیح علم کی جستجو اور حاصل کرنے کا جذبہ پایا جاتا تھا، لیکن اب طلبہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد سند ِ فراغت حاصل کرلی جائے ۔المیہ یہ ہے کہ کبھی ہمارے درسِ نظامی میں ساٹھ علوم و فنون پڑھائے جاتے تھے جن کی تفصیل میں امام غزالی رحمہ اللہ نے رسالہ لکھا اور اپنے زمانہ کے علوم متعارف کروائے جبکہ تعلیم کا دورانیہ پندرہ بیس سال ہوا کرتاتھا اور اب تو ہمارے تعلیمی مدارس بڑے فخر سے بڑی اشتہار بازی کے ساتھ طلبہ کی توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ دوسال میں درسِ نظامی پڑھانے کی گارنٹی دے رہے ہیں ۔ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ رمضان۱۴۲۶ھ میں اللہ تعالیٰ نے ذہن میں ڈالا کہ چند مشہور اور مستند شروح کے تما م مباحث کو اُردو کے قالب میں ڈھالا جائے۔ خدا کی حکمت تھی کہ یہ خیال اس وقت نہ آیا جب جذبے جوان اور ہمتیں بیدار تھیں ۔ اب پینسٹھ برس کی عمر اور پچھلے چودہ برس سے دل کی بیماری میں مبتلا ہوں تو اب وہ محنت نہ ہو سکتی ہے۔ کئی دن کے سوچ بچار کے بعد نگاہِ انتخاب اپنے بیٹے ڈاکٹر حافظ عبدالکریم محسن فاضل وفاق المدارس پر پڑی ۔ ڈاکٹر صاحب اِنہی دنوں ملنے کے لیے اوکاڑہ آئے تو اپنا منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا پہلے تو بہت پس و پیش کرتے رہے کہ میرا میدان ہی مختلف ہے ۔یہ کام تو کسی شیخ الحدیث کا ہے، لیکن میں متواتر ان کی حوصلہ افزائی کرتارہا ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے وہ اس عظیم کام کے لیے تیار ہوئے۔ میرا اپنے بیٹے عبد الکبیر کے بارے میں بچپن سے یہ مشاہدہ ہے کہ کبھی خیر کی دعوت کو مسترد نہیں کیا۔ میری ہدایات اور مشورے ان کے شامل حال رہے ہیں اور نظر ثانی کاکام نہایت جانفشانی سے انجام دیا ہے ۔ الحمداللہ میں مطمئن ہو ں کہ جس طرح میری خواہش تھی اسی طرح کام ہوا ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے مجھے یہی اُمید تھی ۔ الحمد للہ عمر کے اس آخری حصہ میں سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ خود یہ کام کرتا، لیکن اب یہ اطمینان ہے کہ خود نہیں تو اپنے جسم کے ایک حصہ ہی نے کیا ہے۔بہرحال میں نے ابتدا کردی ہے، اب کہاں تک کام پہنچتا ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ملکی تحریکوں میں کردار وطنِ عزیز میں اب تک تحریک ِختم نبوت ، تحریک ِنظامِ مصطفی اور تحریک ِ تحفظ ناموسِ