کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 76
تک احادیث ِ مبارکہ کی صرف سماعت ہی کرتے رہے ہیں ۔ جو کبھی بھول کر بھی نہ قراء تِ حدیث کرتے اور نہ ہی اُستاد صاحب کے کسی سوال کا جواب دینے کی زحمت گوارا کرتے ہیں ۔ ہمارے ایک استاد صاحب ایسے نا لائق طالب علموں کو ’ہیولیٰ‘ کہا کرتے تھے۔ہیولیٰ ایسی گوندھی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں جس سے کمہار برتن تیارکرتا ہے، کبھی اس سے پیالہ بنا رہاہے تو کبھی لوٹا تیارکررہا ہے اور وہ ہیولیٰ اس کے ہاتھوں لاچار و بے بس ہر شکل اختیار کرنے پر مجبور ہوتاہے۔ بحمداللہ میں نے اپنے طلبا کے اعتراضات کا کبھی برانہیں منایا بلکہ ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ہمارے ایک استاد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج جبکہ میں تمہیں پڑھارہا ہوں تو تمہارا شاگرد ہوں اور کل جب تمہارا سبق سنوں گا، تمہارا اُستاد ہوں گا۔اس وقت ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ تدریس کے دوران اس جملے کی معنویت کا پتہ چلا کہ استاد کا کام سبق کے معاملہ میں اپنے شاگرد کو مطمئن کرنا ہے۔خواہ پندرہ یا بیس بار اپنا سبق پوچھے اور اُستاد ہرطرح کے شکوک و شبہات کو دور کرتا ہے تاکہ اگراگلے دن جب اُستاد سبق سنے تو وہ یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آئی تھی یا آپ نے یہ باتیں تو بتلائی ہی نہ تھیں ۔ طالب ِ علم کو طلب ِعلم میں کوئی شرمندگی یا حیا نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے اگر یہ بات پوچھی تو میرے ساتھی اور ہم درس میرا مذاق اُڑائیں گے کہ ایسی آسان بات کا بھی اس کو پتہ نہیں ہے۔ اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم کے بارہ میں حیا اور شرم کرنے والا طالب ِعلم یا تکبر کی وجہ سے علم کی بات استاد سے نہ پوچھنے والا علم حاصل نہیں کرسکتا : أخي لا تنــال العلم إلا بِستَّــۃ سأنبئک عن تفصیلھا ببیان ذکاء وحرص واجتھاد و صحۃ وصحبۃ أستاذ وطول زمان ’’میرے بھائی! چھ چیزوں کے بغیر تو علم حاصل نہیں کرسکتا۔ جس کی تفصیل میں تمہیں بیان کرتا ہوں ۔وہ ذہانت، علم سے شغف، محنت اور درستگی علم،طویل مدت او راستاد کی رفاقت ہیں ۔‘‘ اسی لیے کہا جاتاہے السائل کالأعمی ذہن میں جو صحیح یا غلط بات کھٹکے، استاد صاحب سے اس کی وضاحت کروالینی چاہیے۔میں اپنے طلبہ کی اس سلسلہ میں ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتاہوں کہ جہاں کوئی شبہ پڑتا ہے تو وہ پوچھ لو یا اس کا جواب پوچھ لو۔ پھر دونوں ہی بتلانے پڑتے ہیں ۔کیونکہ مطالعہ نہ کرنا ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ جب ہم پڑھاکرتے تھے تو