کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 74
سال قبل کا واقعہ ہے کہ آپ کو امام مسجد نے نمازِ وتر کی امامت کے لیے کہا۔ عام طورپر ہمارے نمازی حضرات ایک وتر پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک میں باجماعت وتر تین ہی ادا ہوتے ہیں ۔ آپ نے تین کی بجائے پانچ وتر پڑھائے جس سے نمازیوں اور خواتین میں کافی بے چینی محسوس کی گئی کچھ حضرات توکہہ رہے تھے کہ آپ نے پانچ کیوں پڑھائے؟ بعض کہہ رہے تھے کہ آپ بھول گئے اور بعض نے تین ہی ادا کرلیے۔مسجد میں ایک عجیب ماحول تھا۔میں نے اور بعض نمازیوں نے جب دریافت کیا کہ آپ نے پانچ وترپڑھانے تھے تو پہلے بتادیتے۔ فرمانے لگے کہ ہوسکتا ہے کوئی کثرت رکعات کی وجہ سے جماعت سے پڑھتا یا نہ پڑھتا۔ چنانچہ میں نے سوچاکہ آج انہیں پانچ وتر پڑھادو ں تاکہ یاد رکھیں کہ پانچ وتر پڑھنے بھی سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
تراجم اور تصانیف
امام الہند حضر ت مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ تصنیف، تدریس اور تقریر کی خوبیاں اور اَوصاف کا بیک وقت کسی ایک شخص میں جمع ہونا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کوئی مصنف ہے تو مدرّس نہیں ، بہترین مدرّس ہے تو مقرر نہیں اور اگر میدانِ خطابت کا شہسوار ہے تو تصنیف کے میدان میں نہیں چل سکتا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تینوں اَوصافِ بالا سے نوازا تھا۔ آپ کی چند اہم تصانیف حسب ِذیل ہیں :
1. میلادِ مروّجہ کی شرعی حیثیت:طالب ِ علمی کے آخری دور میں آپ نے ایک رسالہ لکھا جسے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے کئی سال تک شائع کرکے ملک بھر میں مفت تقسیم کیا۔
2. فضائل علم و علما:حافظ ابنِ قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’مفتاح دارالسعادہ ‘ کا اُردو ترجمہ کیا۔ (مطبوعہ)
3. ترجمہ الکامل للمبرد : فاضل عربی کے نصاب سے باب الخوارج تبدیل کرکے غالباً ۱۹۷۴ء میں الکامل للمبرد کے ابواب ضرب الامثال کے کچھ حصہ جات داخل نصاب کیے گئے۔ اس وقت اصل کتاب کا حصول بھی مشکل تھا، اس دور میں آپ نے اصل کتاب کا ترجمہ مع اصل عبارت تحریر کیا جو تاحال نصاب میں شامل ہے۔
4. اسلامی آداب:جس میں روز مرہ کے معمولاتِ زندگی کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا گیا۔ (مطبوعہ)