کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 73
ایک سبق آموز واقعہ ؛ ڈاڑھی بے قصور
دورانِ تعلیم اُنہوں نے ایک بارچک نمبر۳۶،ضلع فیصل آباد، ستیانہ کے ایک نوجوان کا واقعہ سنایاجس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک نوجوان نے علما کی وعظ و نصیحت کے نتیجے میں یاخود مطالعہ کرکے اپنے چہرے کو سنت ِ رسول سے مزین کیا۔ جب بھی اس سے کوئی دنیاوی معاملے میں چھوٹی موٹی کوتاہی سرزد ہوتی تو اسے اہلِ خانہ اور رشتہ دار ڈاڑھی کا طعنہ دیتے کہ ڈاڑھی رکھ کر تو اس طرح کرتاہے جسے سن کر اسے بہت تکلیف ہوتی۔جس طرح آج معاشرے میں ڈاڑھی کا مذاق اور ڈاڑھی والے شخص کو معمولی سمجھ کر ہر اعتراض اس کی ذاتی غلطی کی بجائے ڈاڑھی کا طعنہ دے کر بیان کیا جاتاہے۔ اس نوجوان نے بھی دل برداشتہ ہو کر اپنی ڈاڑھی منڈوادی یعنی سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرواکر گھر میں آکر کہنے لگا کہ اب تو مجھے تم ڈاڑھی کا طعنہ نہ دیا کرو گے؟
مہمان نوازی
مہمانوں کی خدمت اور عزت افزائی آپ کی زندگی کا معمول تھا۔ذاتی مہمان ہویا جامعہ کا،ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور فرمایا کرتے کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ دور دراز سے محبتیں اور عقیدت لے کر ہمارے پاس آتے ہیں ۔ ان کا اکرام بہت ضروری ہے کیونکہ مہمان نوازی سنت ِ انبیا ہے ۔خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے مہمان نواز تھے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اِکرام کرے۔ اکرام سے مراد مرغن غذائیں ، ذائقے دار کھانے اور باتکلف اَنواع و اقسام کے پھل نہیں بلکہ جو کچھ آسانی سے یاجو گھر میں موجود ہو مثلاً چنے کی دال وغیرہ، وہی مہمان کے سامنے دسترخوان کی رونق بنادی جائے۔حقیقت یہ ہے کہ آج اس بات کا بھی علما میں فقدان ہے۔
پانچ وتر کی ادائیگی
ہر ماہ رمضان المبارک کو جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کے لیے چندے کی غرض سے آپ ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد محمدی اہلحدیث کوٹ رادھاکشن میں تشریف لاتے۔ آج سے کوئی دس