کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 72
تھی کہ ان کا اسلاف سے تعلق بڑا گہرا تھا، لہٰذا ان کی رائے کا بڑا اِحترام رکھتے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ مولانا نے اپنے استدلال کی تائید کے لیے سلف صالحین یا کسی بزرگ کا حوالہ نہ دیا ہو۔ وہ صفحہ اور سطر بھی بتاتے کہ فلاں کتاب میں فلا ں مسئلہ درج ہے۔ ان کا حافظہ علما ے اسلاف کی یاد دلاتاتھا۔ ایسے لوگ خا ل خال ہی ہوتے ہیں ۔گویا راسخون فی العلم کی عملی تصویر تھے بالخصوص اسلاف کے نیک اعمال کو اپنانے کی نصیحت فرماتے ۔ حصولِ علم کا ذوق مولانا مرحوم کی تصانیف کا جن لوگوں نے مطالعہ کیا ہے، ان کو یہ معلوم ہوگا کہ آپ کتنے بڑے محقق تھے ؟ وہ جس طرح دینی مسائل میں تحقیق کرتے تھے، اسی طرح سیاسی معاملات اور دوسرے مسائل میں بھی آپ کے تبصرے حقیقت پر مبنی ہوتے ۔ ان کا تبصرہ سننے والوں کی آنکھیں کھول دیتاتھا۔ تفسیر، تاویل آیات، روایت و درایت اور فقہی مسائل کے ساتھ معاشرتی حالات پر ان کے جوابات مدلل ہوتے، روزنامہ نوائے وقت ان کا پسندیدہ اخبار تھا۔ہمیشہ ہفتہ روزہ ’تکبیر‘ کراچی سمیت جماعتی رسائل و جرائد کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے تھے۔ فروعی مسائل میں اعتدال مولانا صاحب ہمیشہ فروعی اختلافات میں اعتدال کا راستہ نکال لیتے تھے کبھی کسی پر طعن و تشنیع نہیں کی اور نہ کسی کے بارے میں غلط زبان استعمال کی۔ عالمانہ انداز میں کسی پر تنقید کرتے تھے مگر اشتعال سے ہمیشہ دور رہتے۔ ان کے نصائح بھی ایسی خصوصیات کا مرقع ہواکرتے۔ فروعی مسائل میں ان کا کہنا تھا کہ دین کے کسی حکم اور دین کے کسی امام کو اپنے اصل مقام سے نہ بڑھاؤ اور نہ گھٹاؤ، مگر افسوس ہے کہ آج تفریق و تخریب اور فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے کچھ لوگوں نے قولاً نہیں تو عملاً آئمہ دین اور فقہاء و مجتہدین کو أرباب من دون اﷲ کا درجہ دے رکھا ہے بلکہ بعض لوگوں نے اپنے آپ کومجتہد ِمستقل سمجھ کر اسلاف سے بے نیازی کا طریقہ اختیار کر لیاہے۔