کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 71
آپ کے درس میں اخلاص حد درجہ تھا، یہی وجہ تھی کہ جو بات بھی آپ کے منہ سے نکلتی، فوری طورپر طلبہ کے ذہن نشین ہوجاتی ۔ اگر کوئی عام آدمی چند منٹو ں کے لیے آپ کے درس میں شریک ہوتاتو بہت کچھ اپنے ساتھ لے جاتا۔ احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں آپ کا طریقۂ تدریس یہ ہوتاکہ پہلے سارے باب کی عبارت پڑھتے یا کسی سے پڑھواتے، پھر باب سے متعلقہ مسائل ایسے انداز میں بیان کرتے کہ تشنگی دورہو جاتی۔ آخر میں مشکل الفاظ کی وضاحت فرماتے۔ اختلافی مسائل میں آپ کا طریقہ یہ ہو تاکہ پہلے ائمہ کی رائے اور ان کے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کرتے، پھر ترجیح کے دلائل بیان فرماتے تھے۔ درس کے دوران شاگردوں پر پوری توجہ ہوتی، طلبہ جتنے مرضی سوالات کرتے، آپ نے کبھی ان کو منع یا ڈانٹا نہیں تھا۔
طلبہ اور جامعہ کے اساتذہ سے برتاؤ
وہ اپنے طلبہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ طلبہ اُن پر اس حد تک اعتماد کرتے تھے کہ اپنے والدین کی مرضی کے خلاف چلنے پر آمادہ ہوجاتے مگر استادِ محترم کی نصیحتوں پر عمل کرنے کو اپنے لیے فرضِ عین سمجھتے تھے، لیکن ان کی گفتگو اس قدر سحر انگیز ہوتی کہ بغاوت پر آمادہ طلبہ کوبھی چند منٹوں میں ٹھنڈا کردیتی۔ اُنہوں نے اپنے آپ کو کبھی بڑا نہیں سمجھا بلکہ اساتذہ کرام کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم رکھتے، اسی طرح جامعہ کے دیگر ملازمین سے بھی ان کا رویہ مثالی تھا۔
عمل کے میدان میں
تقویٰ اور پرہیز گاری کے اَثرات آپ کے چہرے سے ظاہر ہوتے تھے۔ آپ کے چہرے پر ایک قسم کی نورانیت تھی، گویا آپ اس حدیث کا مصداق تھے کہ ((إذا رأوا ذکروا اﷲ)) (مصنف ابن ابی شیبہ:۹۳)آپ نماز بڑی عاجزی سے پڑھتے، آپ کو دیکھنے سے لذت نصیب ہوتی، آپ کے پاس بیٹھنے سے دل کو سکون ملتا ۔ ایک بار میں نے دورانِ تعلیم اُن سے پوچھا: اُستاد محترم !مدرسہ کے حوالے سے کوئی نصیحت فرمائیے۔کہنے لگے کہ چھوٹے بچوں کو کبھی اپنے پاس نہ بٹھانا اور نہ خود ان میں جاکر بیٹھنا، نہ ہی کسی لڑکے کو اُدھار دینا۔
اسلاف کی رائے کا احترام
ایک بات جو میں نے ذاتی طور پر ان کے علمی رویے کے بارے خصوصی محسوس کی وہ یہ