کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 70
دورانِ امامت و خطابت قصہ تعویذ تعویذ فروشی سے آپ پرہیز کرتے تھے۔دورانِ تعلیم ایک واقعہ ہمیں اُستاد محترم نے بتایا کہ جب میں شام کوٹ میں رہائش پذیر تھا کہ ایک دن ایک نمازی آکر کہنے لگا کہ ہماری بھینس دودھ نہیں دے رہی، کوئی تعویذ وغیرہ بنادیں ۔ آپ نے انکار کیا، لیکن اس نے اصرار جاری رکھا۔فرمانے لگے کہ میں نے ایک کا غذ کے اوپر لکھ کریہ جملہ دیا کہ بھینس دودھ دے دو۔ شام کو آدمی بالٹی میں دودھ لے کر آگیا اور کہنے لگا: آپ تعویذ بنا کر نہیں دے رہے تھے ۔ اب جو تعویذ آپ نے لکھ کردیا، اس خوشی میں دودھ لے آیا ہوں ۔ اُستاد ِ محترم فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں دوکام ایسے ہیں جن کو اپنانے سے کاروبار خوب فروغ پاتاہے، اس کے لیے محنت اور جدوجہد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ایک زمین پر (مٹی کی ڈھیری) پر جھنڈا لگا کر بیٹھنے سے اور دوسرا تعویذ فروشی سے ۔ علم میں غرور سے اجتناب مولانا مرحوم ایک بلند پایہ عالم، محقق اور ادیب تھے۔مگراس کے باوجود ان کے مزاج میں غایت درجہ سادگی تھی۔ آپ نے اپنے نام کے ساتھ زندگی بھر مولانا یا شیخ الحدیث کا اضافہ نہیں کیا،نہ کبھی گفتگو میں علمی رعب ڈالتے بلکہ دلائل و براہین کے حوالے سے سمجھاتے ۔ تحمل ،حلم اور بردباری تواضع و انکساری ، متانت و سنجیدگی اور تحمل و بردباری یہ تمام اوصافِ حسنہ حضرت صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔تحمل ،بردباری اور حلم اتنا تھا کہ بڑے سے بڑا مخالف آدمی آجاتا اور آپ سے بات کرتا تو آپ تحمل اور حوصلے سے اس کی بات سنتے اور جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا تو پھر آپ اس کو مطمئن کرتے ۔ شدید ترین اختلاف میں بھی آپ نرم سے نرم الفاظ اختیار کرتے اور راہِ اعتدال پر قائم رہنے کی پوری کوشش فرماتے۔ ذاتیات کی سطح تک کبھی نہیں اُترتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ اِدفع بالتي ہي أحسن کا اُسوہ اختیارکیا۔ بحیثیت ِمعلم و مدرس آپ کا اندازِ تدریس آپ ہی کا خاصہ ہے۔ جو بات بھی کرتے دلیل کے ساتھ کرتے۔