کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 7
٭ قرآنِ کریم مسلمانوں کو جو نظریۂ تعلیم دیتا ہے، وہ پہلی وحی میں موجود ہے لیکن افسوس کہ اس کے پہلے جملے سے آگے بڑھنے کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا جاتا۔ پہلی وحی اِقرأہے اور اسی کے نام سے ہمارے ہاں اِقرأ سرچارج بھی عائد کیا گیا ہے، لیکن اس اِقْرَأ کا ہدف قرآن نے کیا قرار دیا ہے ؟ اس کے لئے پہلی وحی کی آیات ملاحظہ فرمائیں :
﴿ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَ ٭ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٭ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ ٭ اَلَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٭ عَلَّمَ الإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ٭ کَلاَّ إِنَّ الإِنْسَانَ لَیَطْغٰی ٭ اَنْ رَّاٰ ہُ اسْتَغْنٰی ٭ إِنَّ إِلیٰ رَبِّکَ الرُّجْعٰی ﴾ (العلق:۱تا۸)
’’پڑھ ، اس ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا ربّ بہت عزت والا ہے جس نے انسان کو وہ سکھایا جو وہ جانتا نہیں تھا۔سچ مچ، انسان تو سرکشی کرتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو غنی خیال کرتا ہے لیکن آخرکار اسے تیرے ربّ کے پاس تو لوٹ کرجانا ہی ہے۔‘‘
پہلی وحی کا مفہوم واضح ہے لیکن قرآن کے فلسفہ تعلیم کے مزید نکھار کے لئے اسے حسب ِذیل تین نکات میں پیش کیا جاتا ہے :
1. تعلیم اس ربّ کے نام سے ہونی چاہئے جو انسان کا خالق ہے۔ گویا تعلیم کو خالق کی ہدایات اور رہنمائی پر اُستوا رہونا چاہئے۔
2. اس معزز ربّ کے نام سے علم سیکھوجس نے انسان کو وہ علم سکھایاجو وہ جانتا نہیں تھا۔ گویا علم کا بنیادی ذریعہ اللہ کی وحی اور اِلہامی ہدایات ہیں ۔
3. جولوگ بے فکر ہوکر اس تعلیم کی پروا نہیں کرتے، اُنہیں ایک روز ربّ کے پاس تو جانا ہی ہے۔ گویا ایسی تعلیم حاصل نہ کرنا بے فکری کی دلیل ہے جس پر روزِمحشر ، پکڑ کی وعید ہے۔
٭ ہمارے ہاں مغرب کے نظریۂ تعلیم اور نصاب ونظامِ تعلیم سے متاثر ہوکرلوگ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات سیکھنے کو عِلم کے زمرے میں ہی شمار نہیں کرتے لیکن قرآن کا فیصلہ اس سے یکسر مختلف ہے، آئیے دیکھیں قرآن نے علم کا اطلاق کس پر کیا ہے؟ قرآنِ کریم علم کا اطلاق وحی اور الہامی ہدایات پر کرتا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا:
﴿ یَا اَبَتِ إِنِّيْ قَدْ جَائَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَأتِکَ فَاتَّبِعْنِيْ اَہْدِکَ صِرَاطًا