کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 69
غربی اہلحدیث میں بطورِ خطیب و مدرس اپنی ذمہ داری کا آغاز کیا ۔پھر۱۹۶۵ء میں شام کوٹ نو میں الگ مسجد ِفردوس اہلحدیث کا سنگ ِ بنیاد رکھا۔ اس میں ۱۹۶۵ئتک قرآن وسنت کی تعلیم اور عوام الناس کو وعظ و تذکیرکرتے رہے۔ ۱۹۷۲ء میں جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں فاضل عربی کی تیاری کروانے کے لیے آپ کو مہتمم مدرسہ مولانا معین الدین لکھوی حفظہ اللہ نے اپنے ادارے میں خصوصی مدرّس مقرر کیا۔جامعہ کے طلبہ پر آپ اس قدر محنت کرتے کہ فاضل عربی کے سالانہ امتحان میں طلبہ عموماً سوفیصد نمایاں کامیابی حاصل کرتے رہے ۔یہ محنت تاحال جاری تھی۔ شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ کی جامعہ محمد یہ اوکاڑہ سے علیحدگی کے بعد آپ کو ۱۹۸۰ء میں بخاری شریف کی تدریس کی ذمہ داری بھی دے دی گئی جو تادمِ واپسیں آپ نے نباہی ۔اسی طرح خواتین کے مدرسہ تعلیم الصالحات، محلہ دارالسلام اوکاڑہ میں ایک عرصہ تک پڑھاتے رہے۔ بالآخراپنی بیماری کی وجہ سے۵/جولائی۱۹۹۹ء کو پڑھانے کا سلسلہ ترک کردیا۔ تقریباً گزشتہ تین سالوں سے فجر کی نماز کے بعد گھر میں کچھ نوجوا ن طلبہ جن میں عبد ا لغفور عاصم اور محمد عثمان غنی قابل ذکر ہیں ، بخاری شریف پڑھنے کی غرض سے ہرروز آتے، جن کا بخاری شریف کا سبق کتاب الدعا اور مدرسہ میں طلبا کا سبق کتاب الصلوٰ ۃ پر تھا کہ آخری وقت آگیا۔خطابت کے میدان میں آپ نے ۱۹۷۷ء تا۱۹۹۷ء تقریباً بیس برس دارالحدیث محمدیہ عام خاص باغ ملتان میں خطبہ جمعۃ المبارک پڑھایا اور مرکزی جامع مسجد فریدیہ اہلحدیث قصور میں ۱۹۹۶ء تا۱۹۹۹ء تک خطابت کی ذمہ داری اَدا فرمائی ۔ رشتہ ازدواج اور اولاد مولانا عبدالرحیم کوٹلوی اپنے نورِچشم مولانا عبدالحلیم کے لیے رشتے کی تلاش کی غرض سے شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد عبداللہ بڈھیمالوی رحمہ اللہ سے ملنے اوکاڑہ میں آئے اور پوچھا کہ آپ نے صاحبزادی کی کسی جگہ نسبت وغیرہ تو نہیں کی ۔ مولانا فرمانے لگے: نہیں آپ نے کہا کہ آپ مجھے کسی گھر کا پتہ دیں گے، بہتر ہے کہ آپ ہی مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے عبدالحلیم کے لیے عنایت کردیں جسے مولانا صاحب نے منظور کیا، لہٰذا مولانا عبد الحلیم۱۹۶۱ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ آپ کی اولاد میں حافظ عبدالوحید (امریکہ)، ڈاکٹر عبدالکبیر محسن (راولپنڈی )، عبدالباسط ،محمد عمران ، عبدالحی عابد اور ایک بیٹی شامل ہیں ۔