کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 66
یادِ رفتگاں حکیم محمدیحییٰ عزیز ڈاہروی شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم کوٹلوی رحمۃ اللہ علیہ (علوی) زندگی میں بعض یادیں صفحۂ قرطاس پر لاتے ہوئے بڑی مشکل پیش آتی ہے، ایسی ہی کیفیت اس وقت میرے دل و دماغ پر بھی طاری ہے ذہن اور جسم تھکے ہوئے اور اعصاب شل ہیں ۔ اُستاذِ محترم شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم صاحب کی محبت و شفقت اور خلوص ہمارے لیے انتہائی قیمتی اثاثہ تھا۔آپ کو مرحوم لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں ۔ آنکھیں پرنم، خیالات منتشر اور بے چینی و پریشانی کے لمحات میں چند صفحات لکھنے کی جستجو کررہا ہوں ۔ آپ کا تذکرہ آپ کے صاحب ِعلم و فضل نامور تلامذہ اور ملک کی مایہ ناز ادبی، علمی شخصیات کی زبانی جاری رہے گا،کیونکہ سلف صالحین نے ایک عالم حقیقی کے جو اَوصاف بیان کیے ہیں وہ مولانا میں بدرجہ اتم موجود تھے۔مثال کے طورپر عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ علما کی کوئی نشانی ہے؟ تواُنہوں نے جواب دیا کہ ’’عالم وہ ہے جو اپنے علم پر عمل کرے اور اپنے علم اور عمل کو تھوڑا سمجھے دوسروں کے علم میں رغبت کرے اور حق جس کی طرف سے بھی اس کے پاس آتاہو، اسے قبول کرے اور جہاں سے بھی اسے علم ملے اسے حاصل کرے۔‘‘ اسی طرح حضرت فضل بن عیاض رحمہ اللہ نے فقیہ کے بارے میں فرمایا: ’’إنما الفقیہ الذي أنطقتہ الخشیۃ وأسکتۃ الخشیۃ،إن قال قال بکتاب ﷲ والسنۃ وإن سکت سکت بالکتاب والسنۃ، وإن اشتبہ علیہ وقف عندہ ورَدّ إلی عالمہ‘‘ (طبقات الحنابلہ:۱/۲۳۱) ’’یقینا فقیہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ کا خوف گویائی پر آمادہ کرے اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہی خاموش کردے۔ اگر وہ بات کرے تو قرآن و سنت کی بات کرے اور اگر خاموش رہے تو قرآن وسنت پر خاموش ہو۔ اگر اس کو کسی مسئلہ میں اشتباہ ہوتو بحث و تمحیص سے رُک جائے اور اسے دوسرے عالم کی طرف لوٹا دے۔‘‘