کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 65
پیرو ی کا حکم نہیں دیا گیا،کیونکہ ایک تو ان دونوں انبیا کی شریعتیں الگ الگ ہیں ، دوسرے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کا عرب میں کوئی وجود نہ تھا جس کی پیروی کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا۔
اس لیے یہ بات قرآنِ مجید سے کہیں ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین ابراہیمی کی روایت میں پہلے وحی یا اجتہاد سے تجدید واصلاح فرمائیں ، پھر اس میں کچھ اضافے کر دیں اور آخر میں اسے اپنے ماننے والوں پر دین کی حیثیت سے جاری فرما دیں اور اس کا نام ’سنت ‘ رکھ دیں ۔
غامدی صاحب کو میرا یہ چیلنج ہے کہ وہ ’سنت‘ کی جو تعریف فرما رہے ہیں اور اس کا جو مفہوم مراد لے رہے ہیں ،سنت کی یہی تعریف اور یہی مفہوم وہ پوری اُمت میں سے کسی ایک محدث، فقیہ یا مجتہد کے ہاں دکھا دیں اور اگر ان کی اس ’نادر فکر‘ اور ’نرالے اجتہاد‘سے اُمت کا کوئی صاحب ِعلم متفق نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو وہ اسلامی اصطلاحات کے مفاہیم بگاڑنے کا ٹھیکہ نہ لیں ،خود گمراہ نہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش نہ کریں ۔بلکہ ’سبیل المؤمنین‘ کو اختیار کریں ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ چونکہ غامدی صاحب
1. سنت کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ماننے کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مانتے ہیں ۔
2. ’سنت‘ کو تنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ’روایت‘ قرار دینے کی بجائے دو انبیاے کرام (حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)کی مشترکہ روایت قرار دیتے ہیں ۔
3. ’سنت‘ کی اسلامی اصطلاح کی متفقہ اور مسلمہ اجماعی تعریف اور مفہوم … یعنی شریعت کے وہ احکام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول،فعل یا تقریر (خاموش تائید) کے ذریعے ثابت ہوں … کو چھوڑ کر اس کی وہ من گھڑت اور خود ساختہ تعریف کرتے ہیں اور اس سے اپنا من پسند مفہوم نکالتے ہیں ۔
لہٰذا ہمارے نزدیک وہ منکرین حدیث کی صف میں کھڑے ہیں اور ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ بھی ’منکر حدیث‘ ہیں ۔ [جاری ہے]