کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 64
ان تمام تصریحات کے بعد یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ سورۃ النحل کی مذکورہ آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جس دین ابراہیمی کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ وہی دین ہے جو تمام انبیاے کرام کا مشترکہ دین ہے۔ اس میں صرف دین ابراہیمی کی خصوصیت یا تخصیص نہیں ہے بلکہ قرآن میں دوسرے انبیاے کرام کا ذکر کر کے ان کی ہدایت اور دین کی اقتدا اور پیروی کرنے کا حکم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے۔ مگر غامدی صاحب دین ابراہیمی کو جو تمام انبیا کرام کا دین ہے اس کو پہلے ’دین ابراہیمی کی روایت‘ کا نام دیتے ہیں اور پھر اسے ’سنت‘ کا نام دے ڈالتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت مکے میں دین ابراہیمی کی کون سی روایت موجود تھی جس کی پیروی کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا؟ وہاں تو قریش کی وہ حالت تھی جسے دورِ جاہلیت کہا جاتا ہے اور وہ لوگ تو شرک،بت پرستی،گمراہی اور اوہام پرستی میں مبتلا تھے۔جاہلیت کے جو معاشرے توحید کا بنیادی عقیدہ چھوڑ چکے تھے، اس کے ہاتھ دین ابراہیمی کی کون سی روایت سے محفوظ تھی۔اگر دین ابراہیمی کی روایت سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو دین چلا آ رہا تھا تو یہ بات حقیقت کے سراسر خلاف ہے کیونکہ ان کا دین اپنی اصلی صورت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محفوظ نہیں رہا۔کوئی معقول آدمی بقائمی ہوش وحواس اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کا دین جب بگڑ جاتا ہے اور قوم اس کے دین کو فراموش کر بیٹھتی ہے تو اس دین کی یاد دہانی کے لیے نئے نبی کی بعثت ہوتی ہے،لیکن اگر پہلے نبی کے دین کی روایت اپنی اصلی حالت میں موجود اور محفوظ ہو تو پھر کسی نئے نبی کی بعثت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی! اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت نہ صرف ابراہیم علیہ السلام کے دین میں بگاڑ آ چکا تھا بلکہ آپ کے بعد آنے والے انبیا حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کو بھی لوگ بھلا بیٹھے تھے جبھی تو اس کی دعوت وتبلیغ کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا۔ پھر سورۃ النحل کی مذکورہ آیت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کی