کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 63
لوگ(مکے والے قریش) ہماری نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں تو ہم نے ان کی بجائے ایسے لوگ مقرر کر دیے ہیں جو ان نعمتوں کی ناشکری کرنے والے نہیں ۔(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) پہلے نبیوں کو بھی اللہ نے ہدایت بخشی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی ہدایت (دین) کی پیروی کریں ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ صرف ابراہیم کے دین کی پیروی کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ تمام انبیاے کرام کی ہدایت اور دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے،کیونکہ سب کا دین ایک ہی ہے ا ور وہ اسلام ہے جو سراپا ہدایت ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک صحیح اور سچا دین بھی صرف اسلام ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿إنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہ ِ الإسْلَامُ﴾(آلِ عمران:۱۹) ’’ بے شک اللہ کے نزدیک (سچا) دین صرف اسلام ہے۔‘‘ بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ آخرت میں صرف دین اسلام مقبول دین ہو گا اور اس کے ما سوا کوئی اور دین مقبول نہ ہو گا : ﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ﴾ (آلِ عمران:۸۵) ’’ اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرتا ہے تو اللہ اس کے دین کو ہرگز قبول نہ کرے گا اوروہ شخص آخرت میں گھاٹے میں رہے گا۔‘‘ تمام انبیاے کرام کا دین اسلام رہا اور سب کی تعلیمات میں درج ذیل اُمور مشترک تھے: وجودِ باری تعالیٰ، عقیدئہ توحید، عقیدۂ نبوت ورسالت، عقیدۂ آخرت، فرشتوں پر ایمان، آسمانی کتب پر ایمان،ایک اللہ کی عبادت(نماز،روزہ، حج،زکوۃ ،قربانی وغیرہ)، حقوق العباد (جیسے والدین سے حسن سلوک) اور اچھے اخلاق (جیسے سچ بولنا،جھوٹ نہ بولنا وغیرہ) گویا سب کے ہاں اسلام کے بنیادی عقائد واعمال یکساں تھے،لیکن سب کی شریعتیں جدا جدا تھیں ۔حتیٰ کہ قبلہ تک مختلف تھا جس کی طرف نماز پڑھنے سے ان کی نماز درست ہو سکتی تھی : ﴿وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ﴾(البقرۃ:۱۴۸) ’’ اور ہر مذہبی گروہ کا اپنا ایک قبلہ ہے جس کی طرف منہ کر کے وہ عبادت کرتا ہے مگر تم لوگ نیکی کی راہ میں ایک دوسرے سے آ گے بڑھنے کی کوشش کرو۔‘‘