کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 61
’’اُس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب علیہ السلام ! ہم تمہیں اور ان لوگوں کو جو تمہارے ساتھ ایمان لائے ہیں ، اپنی بستی سے نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے ’مذہب‘ میں واپس آنا ہوگا۔‘‘ شعیب علیہ السلام نے کہا: ’’اگر ہم تمہارے ’مذہب‘ سے بیزار ہوں تو کیا پھر بھی تمہاری بات مان لیں ۔ ہم اللہ پر جھوٹ گھڑنے والے ہوں گے اگر ہم تمہارے ’مذہب‘ میں لوٹ آئیں ۔ کیونکہ اللہ ہمیں اس سے بچا چکا ہے۔‘‘ 3. ایک مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوا کہ اپنے بارے میں یہ کہیں : ﴿قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرَھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (الانعام:۱۶۱) ’’کہہ دیجئے کہ میرے ربّ نے مجھے سیدھا راستہ بتا دیا ہے۔ وہی صحیح دین جو ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا جو کہ موحد تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔‘‘ واضح ہوا کہ اس جگہ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ کا بدل ہے: دِیْنًا قِیَمًا اور اُس کا بدل ہے مِلَّۃَ اِبرَاھِیْمَ اور تینوں کا مطلب ہے ’دین اسلام‘ ! 4. ﴿وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ﴾ (البقرۃ:۱۳۰) ’’اور ایسا کون ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے ’دین‘ سے منہ موڑے؟ سواے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنا لیا ہو۔‘‘ مذکورہ بالا آیات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مِلَّۃ کے معنی دین اور مذہب کے ہیں مگر غامدی صاحب نے مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ کے معنی ابراہیم علیہ السلام کا دین، لینے کی بجائے اس کے معنی ’دین ابراہیم کی روایت‘ کرکے دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح وہ جس آیت سے اپنی ’سنت‘ (دین ابراہیم کی روایت) کا مفہوم کشید کرتے ہیں ، اس میں سرے سے یہ معنی موجود نہیں ہیں ۔ 5. حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاے کرام کا دین توایک ہی تھا مگر شریعتیں الگ الگ تھیں ، اس کی دلیل خود قرآن مجید میں ہے : ﴿لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجًا وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً﴾