کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 60
2. مذکورہ آیت میں بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’ملت ِابراہیم‘ یعنی ’دین ابراہیمی‘ کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے مگر اس آیت میں یہ بات کہاں ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دین ابراہیم کی تجدید و اصلاح بھی فرمائیں ، اس میں اپنی طرف سے اضافے بھی کردیں ، اور پھر جو کچھ تیار ہوجائے، اسے اپنے ماننے والوں میں ’دین کی حیثیت سے جاری‘ فرما دیں ؟‘‘
یہ سارا مفہوم غامدی صاحب کے اپنے ذہن کی اُپچ ہے جسے اُنہوں نے آیت کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ذاتی خیالات کو قرآنِ مجید کی عبارت میں پڑھنے کی عمدہ مثال قائم کردی ہے جو ٹھیک ٹھیک مذموم تفسیر بالرائے اور قرآن کی معنوی تحریف ہے۔
قرآنی آیات کی معنوی تحریف کرکے ان سے اپنے من پسند نظریات برآمد کرنا دوسرے منکرین حدیث کی طرح غامدی صاحب کی بھی عادت ہے۔ اس حوالے سے ہم نے بہت سی مثالیں اپنی کتاب ’غامدی مذہب کیا ہے؟‘ میں پیش کردی ہیں ۔
آیت میں مِلَّۃ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی دین اور مذہب کے ہیں ۔ مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے : المِلَّۃ: ’الدین‘ کمِلَّۃ الاسلام والنَّصرانیۃ والیہودیۃ
’’ملت کے معنی دین کے ہیں جیسے دین اسلام، نصرانیت (عیسائیت) کا دین، یہودیت کا دین۔‘‘ (لسان العرب از ابن منظور: زیرمادّہ ’ملل‘)
قرآنِ مجید میں بھی مِلَّۃ کا لفظ دین اور مذہب کے معنوں میں آیا ہے، مثال کے طور پر درج ذیل آیات ملاحظہ ہوں :
1. ﴿وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ﴾ (البقرۃ:۱۲۰)
’’اور یہودی اور عیسائی تجھ سے اُس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تو اُن کا ’مذہب‘ اختیار نہ کرے۔‘‘
2. قومِ شعیب علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا:﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا قَالَ اَوَ لَوْ کُنَّا کٰرِھِیْنَ ٭ قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْھَا﴾(الاعراف:۸۸،۸۹)