کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 6
عائد ہوتا ہے کہ ہماری تعلیم ایسی ہو جو اس مملکت ِخداداد کو حقیقی معنوں میں اسلام کا گہوارہ بنا دے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ تعلیم کے کئی ایک تصورات سے ہٹ کر ہماری حالیہ قومی تعلیمی پالیسی اور عدالتی فیصلے اس وقت گلوبلائزیشن کے عالمی ایجنڈے اور نیوورلڈ آرڈر کے مفادات کے تابع ہوتے جارہے ہیں ۔ ہر گہری نظر رکھنے والا شخص تعلیم کے میدان میں قومی سطح پر اپنائے جانے والے ان رجحانات کا بآسانی مشاہدہ کرسکتا ہے ۔
’علم‘ کا مصداق ؛ قرآن وسنت کی روشنی میں
جہاں تک اسلام کے نظریۂ تعلیم کا تعلق ہے تو یہ مغرب کے تعلیمی نظریہ سے کئی لحاظ سے بالکل مختلف ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اہل مغرب یک دنیوی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں اورسیکولرزم پر یقین رکھنے کے باعث تعلیم میں الٰہیات کا عمل دخل درست قرار نہیں دیتے جبکہ مسلمان دنیا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے سبب اسلامی ہدایات کی روشنی میں ہی اپنے نظریۂ تعلیم کو استوار کرتے ہیں ۔مسلمان بچوں کو دی جانے والی تعلیم لازماً مذہبی تعلیمات سے ہم آہنگ اور اَسلامی اہداف ومقاصد پر مبنی ہونی چاہئے۔ چنانچہ قرآنِ کریم نے تعلیم کے مغربی نظریہ کی تردید کرکے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی تعلیم سے پرے رہنے کا حکم دیا ہے جس کا مقصد فقط اِس دنیا کا مفاد ہو۔ سورۃ النجم میں ارشادِ باری ہے :
﴿ فَاَعْرِضْ عَنْ مَّنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ إِلاَّ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا ٭ ذٰلِکَ مَبْلَغُہُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اہْتَدٰی ﴾ (النجم:۲۹)
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! جو میرے ذکر سے منہ موڑتے ہیں اور صرف دنیوی زندگی کے طالب ہیں ، ان سے اِعراض کر، ان کے عِلم کا مقصد وہدف توبس اتنا ہی ہے۔ تیرا ربّ زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ…؟‘‘
اس آیت میں واضح طورپر اس مغربی نظریۂ تعلیم کی نفی کی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے مسلمانوں کو ایسے مقصد ِتعلیم سے اِعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا ہدف محض دنیا ہو او رجو اللہ کے ذکر سے خالی ہو…!