کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 58
’’منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم و صلوٰۃ، حج و زکوٰۃ اور عمرہ و قربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں ، صریحاً خود قرآنِ مجید کے انکار کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن کو منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے ان اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر وہ اُن کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لئے بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ اصطلاحات کے معاملے میں تنہا لغت پر اعتماد بھی ایک بالکل غلط چیز ہے۔‘‘ (مقدمہ ’تدبر قرآن‘: جلد اوّل، ص۲۹، مطبوعہ ۱۹۸۳ئ) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مولانا اصلاحی کے نزدیک کسی دینی اصطلاح کے معنی بدلنے کا مطلب اس کا انکار ہے۔ اس بنا پر غامدی صاحب کا ’سنت ‘ کی اصطلاح کے معنی بدلنا ’سنت‘ کا انکار ہے۔ اس لئے وہ اپنے استاد کے اُصول کے مطابق منکر حدیث و سنت قرار پاتے ہیں ۔ آگے چل کر مولانا اصلاحی نے اس بارے میں اپنے اُستاد مولانا فراہی رحمہ اللہ کا یہ مسلک لکھا ہے کہ ’’ان دینی اصطلاحات کے بارے میں مولانا فراہی اپنے مقدمہ تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’اسی طرح تمام اصطلاحاتِ شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، جہاد، روزہ، حج، مسجد ِحرام، صفا، مروہ اور مناسک ِحج وغیرہ اور اُن سے جو اعمال متعلق ہیں ، تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں ، وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں … پس جب ایسے اصطلاحی الفاظ کا معاملہ پیش آئے جن کی پوری حدو تصویر قرآن میں نہ بیان ہوئی ہو تو صحیح راہ یہ ہے کہ جتنے حصے پر تمام اُمت متفق ہے، اتنے پرقناعت کرو۔‘‘ (مقدمہ ’تدبر قرآن‘: جلد اوّل/ ص۲۹،۳۰، مطبوعہ ۱۹۸۳ء) میں نے اس مقام پر دانستہ طور پرمولانا اصلاحی اور مولانا فراہی کی تحریروں کے اقتباسات دیئے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب پوری اُمت ِمسلمہ میں سے صرف انہی دو حضرات کو علما سمجھتے ہیں اور اِن کو ’آسمان‘ کا درجہ دیتے ہیں ۔ باقی علماے اُمت کو وہ ’خاک‘ کے برابر سمجھتے ہیں جیسا کہ اُنہوں نے اپنی کتاب ’مقامات‘ میں لکھا ہے: ’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا لیکن امین احسن اور اُن کے اُستاد حمیدالدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ