کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 57
٭ ’’مفتی سے ’ہماری مراد‘ وہ آدمی ہے جو سرکاری خرچ پر مفت حج کرکے آئے۔‘‘ ٭ ’’خلیفہ سے ’ہماری مراد‘ لکھنؤ کا حجام ہے۔‘‘ کیا ایسے سرپھرے شخص کے ان دعاوی کو کوئی معقول آدمی تسلیم کرسکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان معاشرے میں اس طرح کے تَلعُّب بالدین اور اسلامی اصطلاحات سے کھیل مذاق کی اجازت دی جاسکتی ہے ؟ غامدی صاحب! ہوش کے ناخن لیں ۔ آپ یہ لوگوں کو دین سمجھا رہے ہیں یا اپنی ہواے نفس کا اظہار فرما رہے ہیں ؟ ع تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟ دین کی اصطلاحات کے مسلمہ معانی و مفاہیم بدلنا ہمارے ہاں کے منکرین حدیث کی پرانی عادت ہے۔ مشہور منکر ِحدیث پرویز صاحب نے بھی بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے اپنی تحریروں میں یہ حربہ اختیار کیا ہے ۔ اُنہوں نے صلوٰۃ، زکوٰۃ، جنت، جہنم، جنات، آدم، ملائکہ، حتیٰ کہ’اللہ و رسول‘ کے مسلمہ اصطلاحی مطالب بدل ڈالے جس کے سبب پاکستان بھر کے ڈیڑھ ہزار علماے کرام اپنے دستخطوں کے ساتھ اُن پر کفر کا فتویٰ لگانے پر مجبور ہوئے۔ دینی اصطلاحات کے مسلمہ معنی و مفہوم کو بدل ڈالنا ایک عظیم گمراہی ہے، شرارت ہے، فتنہ ہے اور اِلحاد و زندقہ ہے۔ خود غامدی صاحب کے اُستاد اور اُستاذ الاستاذ جن کا شاگرد کہلانا وہ اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتے ہیں اور جن کی فکر کے وہ علمبردار بنتے ہیں ، ایسی شنیع حرکت کے سخت مخالف تھے۔ چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر ’تدبر قرآن‘ کے ’مقدمہ‘ میں لکھتے ہیں : ’’اُمت کے جس تواتر نے قرآنِ کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اس وجہ سے اگر قرآنِ مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جوسلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہیں ۔‘‘ (مقدمہ ’تدبر قرآن‘: جلد اوّل/ ص ۲۹، مطبوعہ ۱۹۸۳ء) پھر دینی اصطلاحات کے مطالب بدلنے کو مولانا اصلاحی ’منکرینِ حدیث کی جسارت‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :