کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 56
فرمایا ہے۔ قرآن میں اس کا حکم آپ کے لئے اس طرح بیان ہوا ہے : ﴿ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنْ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفًا وَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(النحل ۱۲۳) ’’پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ِابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘ (میزان: ص۱۰، اپریل ۲۰۰۲ئ، لاہور؛ اُصول و مبادی: ص ۱۰، فروری ۲۰۰۵ئ، لاہور) اسلامی شریعت میں ’سنت‘ کی اصطلاح کا کیا مفہوم ہے؟ یہ اصطلاح چودہ صدیوں سے اُمت ِمسلمہ کے ہاں کن معنوں میں مستعمل ہے؟ اور غامدی صاحب اس اصطلاح سے اپنا کیا مفہوم نکال رہے ہیں اور اس بارے میں قرآنِ مجید کی جس آیت سے وہ دلیل پیش کررہے ہیں ، وہ کہاں تک صحیح دلیل ہے؟ اس پر بعد میں گفتگو کی جائے گی۔ سردست ہمیں ان کے اس اندازِ بیان اور طرز ِ کلام کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے جو اُنہوں نے سنت کامطلب بیان کرتے ہوئے اختیار فرمایا ہے : ’’سنت سے ہماری مراد یہ ہے…‘‘ غامدی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’سنت‘ ایک اسلامی شرعی اصطلاح ہے جو اپنا ایک مسلمہ اور متعین مفہوم رکھتی ہے۔ یہ مقدس اصطلاح کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ کوئی شخص اُٹھ کر اپنے جی سے، جو چاہے اس سے مراد لیتا پھرے۔ معاف کیجئے، یہ اندازِ کلام اس طرح کا ہے جیسے کوئی سر پھرا شخص یوں دعویٰ کرے کہ ٭ ’’نماز (اقامت ِ صلوٰۃ) سے ’ہماری مراد‘ دین ِموسوی کی وہ روایت ہے…‘‘ ٭ ’’روزے (صوم) سے ’ہماری مراد‘ دین عیسوی کی وہ روایت ہے…‘‘ ٭ ’’حج سے ’ہماری مراد‘ دین سلیمانی کی وہ روایت ہے…‘‘ ٭ ’’ زکوٰۃ سے ’ہماری مراد‘ دین داؤدی کی وہ روایت ہے…‘‘ ٭ ’’ صحیح حدیث سے ’ہماری مراد‘ وہ خبر یا ا طلاع ہے جو کبوتر یا ہُدہُد کے ذریعے موصول ہو۔‘‘ ٭ ’’مجتہد سے ’ہماری مراد‘ ایسا شخص ہے جوانتہائی کوشش اور جدوجہد کے بعد ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر چڑھ جائے۔ ٭ ’’فقہ سے ’ہماری مراد‘ وہ علم ہے جو کسی شخص کو بگلے کی طرح پانی میں ایک ٹانگ پر کھڑا ہوکر غوروفکر کرنے کے بعد حاصل ہو۔‘‘