کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 5
فن ’گلوکاری‘ کی شکل میں عشق ومستی اور محبوبہ کے جسم واَدا کا ہوسناک نقشہ کھینچے تو وہ گلوکار ’فنکار‘ کہلاتا، قومی اثاثہ قرار پاتا اور حکومتی گرانٹ کے علاوہ عوامی مقبولیت کا بھی مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہ انہی سیکولر نظریات کا ہی حاصل ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ضوابط کی رو سے مذہب کی بنیاد پر کوئی چندہ/ ڈونیشن حاصل کرنا ایک جرم ٹھہرتا ہے جبکہ اسلام ہمیں مذہب کی بنیاد پر ہی تمام صدقات وزکوٰۃ کی ترغیب دیتا ہے۔ دورِ حاضر کی دیگر بہت سی ناانصافیوں کی طرح ایک بڑی زیادتی وہ بھی ہے جو تعلیم کے میدان میں مسلمانوں سے برتی جارہی ہے۔ تعلیم کے خودساختہ تصور کے نام پر جہاں ایک طرف منتخب نمائندگان کو حق نمائندگی سے محروم کردیا جاتا ہے، وہاں اس طرح اسلام کے نظریۂ تعلیم سے بھی بہت بڑا مذاق کیا جارہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے اور کسی قوم کی تعمیروتخریب میں اس کا کردار اہم ترین ہے۔ کسی قوم کی تربیت جس نہج پرکرنا مقصودہو، اس سلسلے میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔لیکن تعلیم محض ایک عمل کا نام ہے، اصل قابل غور امر یہ ہے کہ تعلیم کن نظریات اور مقاصد کے تحت دی جائے کیونکہ ’تعلیم برائے تعلیم‘ تو ایک مہمل تصور ہے ! تعلیم کے سلسلے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں ، بعض لوگ اگراس کا ہدف طالب علم کی ذاتی فلاح اور آئندہ زندگی میں پیش آنے والی ضروریات کی تکمیل کی بہتر استعداد کو ٹھہراتے ہیں توکچھ لوگ اسے ریاستی مفادات کے تابع قرار دیتے ہیں ۔ تعلیم کے سلسلے میں ایسے ہی مزید کئی نظریات بھی پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ہماری نظر میں ہر قوم کی تعلیم کو اس کے نظریاتِ زندگی کے تابع ہونا چاہئے۔ کسی قوم کے اَفراد جو ’ورلڈ ویو‘ رکھتے ہیں ، اس کے نونہالوں اور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت بھی اسی نہج پر ہونی چاہئے۔ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے جہاں ہماری تعلیم کو ملکی ترقی اور وطنی استحکام کا باعث بننا چاہئے، وہاں ایک مسلمان ہونے کے ناطے اسے اسلام کے نظریۂ حیات سے بھی کلی طورپر ہم آہنگ ہونا چاہئے یعنی تعلیم ایسی ہو جو اسلامی تقاضوں کے مطابق ہمیں اچھا مسلمان بناسکے اور ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔ پاکستان کے اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے سے اہالیانِ پاکستان پر یہ فرض بھی