کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 48
حاشیہ باندھے ہوئے تھے۔ پس آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اس دن کے بعد آپ دوبارہ منبر پر تشریف فرما نہ ہوئے (یعنی یہ آپ کا آخری خطبہ تھا)۔ پس آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان کی، پھر فرمایا: لوگو !میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں پس وہ میری جان و جگر ہیں ان پر جو (میرا حق) تھا، وہ انصار ادا کرچکے ہیں اب ان کا حق باقی ہے۔ ان میں جو نیک ہو تو اس کی قدر کرنا اور جو بُرا ہو اس کے قصور سے درگزر کرنا۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۳۷۹۹) قد عصب بعصابۃ دسماء کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پر ایک چکنا کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ عَصْبٌ کے معنی لپیٹنا، باندھنا، گرد پھیرنا کے ہیں اور اسی سے عصبۃ کا لفظ بناہے جس کا مطلب پٹی، (بڑا) رومال ، عمامہ کے ہیں ۔ (لغات الحدیث :۳/۱۱۶) اور دوسری روایت میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے: وقد عصبت علی رأسہ حاشیۃ برد ’’اور آپ اپنے سر پر چادر کا حاشیہ باندھے ہوئے تھے۔ الغرض آپ نے اپنے سر پر کپڑا باندھ کھا تھا یا آگے سر پر عمامہ تھا، بات ایک ہی بنتی ہے۔ اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ آپ کا آخری عمل سر کو ڈھکے ہوئے ہی تھااور سر کو ڈھکنے کی یہ بھی زبردست دلیل ہے کہ آپ نے فتح مکہ کے موقع پر جو خطبہ دیا تھا، اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر عمامہ تھا اور اس آخری خطبہ میں بھی عمامہ آپ کے سر پر موجود تھا۔ کیونکہ جو کپڑا سر پر لپیٹا جائے، وہ عمامہ کہلاتا ہے اور اس حدیث سے ننگے سر رہنے کی تردید ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سنت سے محبت رکھنے والوں کو ننگے سر ہونے سے بچنا چاہئے۔ ان تمام احادیث کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ عمامہ ایک محب ِرسول مسلمان کے لباس میں شامل ہونا چاہئے اور عمامہ سر کو ڈھانپنے کی ایک مستقل سنت ہے اور ننگے سر کے مقابلے میں عمامہ اور ٹوپی وقار کی علامت قرا رپاتی ہے۔ احادیث میں ٹوپی کے مقابلے میں عمامہ کی احادیث بہت زیادہ اور کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ۔ البتہ ٹوپی کی ترغیب پر بھی صحیح روایات موجود ہیں جن کا ذکر ٹوپی کے عنوان کے تحت آئے گا۔٭ ان شاء اللہ تعالیٰ