کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 45
کون لوگ ہیں یہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِزار کو لٹکانے والا، اِحسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سودا فروخت کرنے والا۔ (صحیح مسلم:۱۰۶،سنن ابوداؤد: ۴۰۸۷)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (پہلی اُمتوں میں سے) ایک شخص اپنی اِزار کو تکبر کے سبب گھسیٹتا ہوا چلا جارہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح بخاری:۳۴۸۵)
صحیح مسلم (رقم:۲۰۸۸) میں بالوں پر فخر کرنے کا بھی ذکر آیا ہے اور آج یہ دونوں چیزیں نوجوانوں میں دیوانگی کی حد تک موجود ہیں ۔ بالوں پر ان کی ہر وقت نظر رہتی ہے۔ یہاں زلف کا کوئی بال پریشان ہوا اور فوراً ہی کنگھی جیب سے باہر آگئی اور اِزار (پتلون وغیرہ) کو تو اس قدر لٹکایا جاتا ہے کہ وہ زمین پر گھسٹتی ہی چلی جاتی ہے۔
13. سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام لیتے مثلاً یہ عمامہ ہے یا قمیص یا چادر ہے اور پھر فرماتے : ((اللھم لک الحمد أنت کسوتنیہ أسألک خیرہ وخیر ما صُنِع لہ وأعوذ بک من شرہ وشرما صُنِع لہ)) (ترمذی:۱۷۶۷،ابوداؤد:۴۰۲۰،مشکوٰۃ :۴۳۴۲ وقال الالبانی: اسنادہ صحیح)
’’اے اللہ آپ ہی کے لئے تعریف ہے کہ آپ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا، میں تجھ سے اس کپڑے کی بھلائی چاہتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی کہ جس کے لئے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اور اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے،اس کے شر سے۔‘‘
14. سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ دوپہر کی گرمی میں ہم اپنے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: وہ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چادر سے سر کو ڈھکے ہوئے تشریف لارہے ہیں ۔ (صحیح بخاری: ۵۸۰۷) اَلتَقَنُّع کا مطلب یہ ہے کہ ’’سر پر کپڑا ڈال کر سر چھپانا‘‘ اور اسی سے مُتَقَنِّعًا کا لفظ بنا ہے جس کا مطلب ’سر کو ڈھانپتے ہوئے‘ بنتا ہے۔
15. سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ایک طویل حدیث میں ابورافع یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کیا ہے جسے سیدنا عبداللہ بن عتیک انصاری رضی اللہ عنہ نے ایک عجیب حیلہ سے آخر کار قتل کرڈالا۔ اور