کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 4
مدارس سے غیر معمولی امتیاز کی روایت جڑ پکڑتی جارہی ہے اور علم کے حوالے سے وہی پالیسی جاری وساری ہے جو مغرب کے ملحدانہ نظریات کا حاصل ونتیجہ ہے۔ آزادی کے ۶۰ برس بعد بھی صرف اُسی علم اور اہلیت کو مستند گردانا جارہا ہے جو جدید مغربی علوم کے حوالے سے حاصل ہو۔ یہ چیز جہاں ایک مسلمان ہونے کے ناطے بالکل ناقابل قبول ہے کیونکہ قرآن وسنت سے اس تصورِ علم کی کھلی مخالفت ہوتی ہے، وہاں یہ رجحان خالصتاً سیکولر نظریات کا بھی آئینہ دار ہے! جہاں تک قرآن وسنت کے نظریۂ علم کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل آگے آرہی ہیں ۔ ہماری نظر میں پاکستانی عدالت اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے یہ فیصلے سیکولر نظریات سے متاثر ہونے اور اسے اپنانے کا لازمی نتیجہ ہیں جبکہ آئین پاکستان میں سیکولرزم کی اُصولی طور پر کوئی گنجائش موجود نہیں ہے کیونکہ آئین کی رو سے پاکستان ’سیکولر‘ کی بجائے ایک اسلامی ملک ہے جس میں قرآن وسنت ہی سپریم لاء ہیں ۔ مزید برآں دستورِ پاکستان میں نہ صرف شریعت ِاسلامیہ کے کئی قوانین کو جگہ دی گئی ہے بلکہ پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت، اسلامی نظریاتی کونسل اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی وغیرہ جیسے کئی آئینی اسلامی ادارے بھی موجود ہیں ۔ سیکولرزم کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ کسی بھی اجتماعی معاشرتی معاملہ میں مذہب کا حوالہ ناجائز قرار پائے۔ یہ سیکولر نظریات کو اپنانے ہی کا شاخسانہ ہے کہ دینی مدارس کی خدمات کو نہ تودائرئہ علم میں شمار کیا جاتا ہے، اورنہ ہی وزراتِ تعلیم ان کے لئے تعلیمی پالیسی یا سالانہ بجٹ میں کوئی حصہ رکھتی ہے اور اُنہیں علم کے حوالے سے زیر بحث لانا ہی گوارا نہیں کرتی۔ یہ بھی سیکولر نظریات کو ماننے ہی کا نتیجہ ہے کہ دینی تعلیم کے فاضل حضرات کو اہل علم وفضل ہی شمار نہیں کیا جاتا جبکہ قرآن وحدیث اور ہمارے مسلم معاشرے کے روزمرہ ’عرف‘ کے اعتبار سے تو’عالم‘ کا مصداق ہی دراصل قرآن وسنت کی تعلیم سے بہرہ ور لوگ قرار پاتے ہیں ۔ یہ سیکولر نظریات کا ہی کرشمہ ہے کہ فن کے دائرۂ عمل میں بھی اگر کوئی مذہبی حوالہ آجائے تووہ مذہبی عمل فن کے دائرہ سے نکل کر حکومتی سرپرستی سے بھی محروم ہونے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فن خوش الحانی جس کی اعلیٰ ترین شکل اگر تلاوتِ قرآن کی صورت میں سامنے آئے تو حکومت کے آرٹس اورکلچر کے ادارے اسے نظرانداز کرنے کی روش اپناتے ہیں لیکن جب یہی