کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 38
کے متعلق لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔ اُنہوں نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیرالمؤمنین! اس اُمت کو بچائیے پہلے اس سے کہ یہ یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ کے متعلق اختلاف کا شکار ہوجائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ ہمیں وہ صحیفے بھیج دو ۔ ہم اُنہیں نقل کرنے کے بعد آپ کو واپس لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعد بن العاص اور عبدالرحمن بن حارث بن ہشام کو ان صحیفوں کو کئی مصاحف میں نقل کرنے پر مامور کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کمیٹی کے قریشی صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اگر قرآنِ کریم کے کسی حصہ میں تمہارا اور حضرت زید کا اختلاف ہوجائے (کہ کون سا لفظ کس طرح لکھا جائے؟) تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھنا کیونکہ قرآن کریم اُنہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘ ان صحیفوں سے مصاحف نقل کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس لوٹا دیئے اور نقل کردہ مصاحف میں سے ہر علاقہ میں ایک مصحف روانہ کردیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحیفوں اور مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا۔‘‘ ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام اہل علاقہ کو یہ لکھ بھیجا کہ تمہارے پاس جو کچھ تمہارے مصحف کے خلاف ہے، اس کو تلف کردو لیکن اکثر روایات میں یہ ذکرہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اُنہیں جلانے کاحکم دیا تھا۔ بعض فاضل محققین نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیگر صحیفوں کے ساتھ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے صحیفوں کو جلانے کا حکم نہیں دیا تھا، اس لئے کہ یہ صحیفے ہی درحقیقت اصل بنیاد اور مصدر تھے جن کو مدنظر رکھ کر مصاحف نقل کئے گئے تھے اور ان صحیفوں پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔ اور ان صحیفوں اور عثمانی مصحف میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ جہاں تک دیگر صحیفوں کا معاملہ تھا تو وہ چونکہ عثمانی مصاحف سے قدرے مختلف تھے جس کی وجہ سے اختلاف کا خدشہ تھا لہٰذا ان کو تلف کروانا عین حکمت و مصلحت کا تقاضا تھا۔ (جاری ہے)