کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 37
کے سلسلہ میں ہی تھا جو صحابہ کرام نے عرضۂ اَخیرہ سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں پھر بعض وجوہِ قراء ات عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہوگئیں لیکن عرضۂ اخیرہ کے وقت حاضر نہ ہونے کی وجہ سے بعض قراء کو اس نسخ کا پتہ نہ چل سکا جس کی وجہ سے نزاع پیدا ہوا۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا تمام لوگوں کو ایک حرف پر جمع کرنا اور باقی حروفِ قرآنیہ کو ختم کرنا مقصود ہوتا تو مصاحف میں حذف و اثبات کا فرق کبھی واقع نہ ہوتا۔ الغرض اس طریقہ پر مصاحف کی کتابت اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لوگوں کو منسوخ اور شاذ قراء ات چھوڑ کر متواتر قراء ات پر جمع کرنا چاہتے تھے۔ ٭ مزید برآں حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ نے کتابت ِمصاحف کے سلسلہ میں یہ طریقۂ کار بھی اختیار کیا کہ اُنہوں نے اس کام پر مامور تین قریشی صحابہ کو یہ تاکید کی کہ اگر کسی لفظ کی کتابت میں تمہارا زید رضی اللہ عنہ بن ثابت سے اختلاف ہوجائے تو اس لفظ کو لغت ِقریش کے مطابق لکھنا، کیونکہ یہ انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ لہٰذا ایسے ہی ہوا اور یہ بات ثابت ہے کہ لفظ تابوت کے متعلق ان کا اختلاف ہوا۔ حضرت زید کا خیال تھا کہ اسے ہاء کے ساتھ التابوہ لکھا جائے اور قریشی صحابہ کا خیال تھا کہ اسے تاے مفتوحہ کے ساتھ لکھا جائے۔ اُنہوں نے یہ معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیا تو اُنہوں نے حکم دیا کہ اسے تائے مفتوحہ کے ساتھ لکھا جائے کیونکہ لغت ِقریش میں یہ اسی طرح ہے۔ ان صدیقی صحیفوں کو مصاحف میں نقل کرنے کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ صحیفے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو واپس لوٹا دیے اور جو مصاحف اُنہوں نے تیار کئے تھے، ان میں سے ایک ایک مصحف مملکت ِاسلامیہ کے ہر علاقہ میں روانہ کردیا اور شرانگیزی اور فتنہ کے دروازہ کو بند کرنے، نزاع کے استیصال اور تمام اُمت ِ مسلمہ کے لئے ان مصاحف کو مرجع اساسی بنانے کے لئے ان کے علاوہ تمام صحیفوں یا مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا۔ صحیح بخاری میں اس کی تفصیل ان الفاظ میں مروی ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور اس وقت وہ آرمینیا اور آذربائیجان کے محاذ پر جہاد میں مشغول تھے۔ وہ قراء ت