کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 36
کلمات کو ایک رسم پر لکھنے کی بجائے بعض مصاحف میں ایک رسم سے اور بعض مصاحف میں دوسری قراء ات کے مطابق الگ رسم کے ساتھ لکھ دیا گیا۔ مثلاً سورئہ بقرہ کی آیت ﴿وَوَصّٰی بِھَا اِبْرَاھِیْمُ﴾ کو بعض مصاحف میں ص سے پہلے دو واؤں کے ساتھ اور بعض میں ایک واؤ کے ساتھ لکھا گیا ہے اور دو واؤں کے درمیان الف موجود نہیں ہے جبکہ بعض مصاحف میں دو واؤ کے درمیان الف موجود ہے یعنی وَ اَوْصٰی اسی طرح سورۂ آلِ عمران میں ﴿وَسَارِعُوا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ بعض مصاحف میں سین سے پہلے واؤ موجود اور بعض میں محذوف ہے۔ اور ﴿تَجْرِی تَحْتَھَا الاَنْھَارُ﴾ (التوبہ) میں مکی مصحف میں تحتھا سے پہلے مِنْ کا اضافہ ہے اور باقی مصاحف میں مِنْ حذف ہے ۔ واضح ہوا کہ جمع قرآن پر مامور کمیٹی نے اس نوع کے کلمات کو ایک ہی مصحف میں اکٹھا دو رسموں کے ساتھ نہیں لکھا کیونکہ اس میں یہ خدشہ پیداہوسکتا تھا کہ شاید یہ لفظ ایک ہی قراء ت میں دو دفعہ نازل ہوا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی لفظ کی دو قرآء تیں ہیں ۔ یہ لفظ بغیر تکرار کے دو وجوہ میں نازل ہوا ہے۔ اور نہ ہی اُنہوں نے ایسے کلمات کو اس طرح دو رسموں کے ساتھ لکھا کہ ایک کو اصل متن میں رکھتے اور دوسرے کو حاشیہ میں رکھتے۔ کیونکہ اس سے یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ شائد حاشیہ میں اصل متن کی تصحیح کی گئی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین نے کتابت ِمصاحف میں یہ طرزِ عملکیوں اختیار کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے قرآنِ کریم ان تمام وجوہِ قراء ات اور حروف کے ساتھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا جن پر وہ نازل ہوا تھا چنانچہ قرآنِ کریم کی ان تمام وجوہ کا احاطہ کرنے کے لئے یہی منہج اور طریقہ سب سے زیادہ موزوں تھا۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُنہوں نے بعض قرائات کو حذف کردیا تھا کیونکہ تمام قراء ات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں ۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ قراء کے جس اختلاف نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو پریشان کیا اور جوبالآخر کتابت ِقرآن کا باعث ہوا، وہ اختلاف سبعہ اَحرف اور قراء ات