کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 35
کتابت ِمصحف کے سلسلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دستور
واضح رہے کہ مصاحف کو نقل کرنے کا یہ سارا کام خود امیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور مہاجرین و اَنصار کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سرپرستی اور نگرانی میں ہورہا تھا اور شدتِ اہتمام کا یہ عالم تھا کہ قرآنِ کریم کا ایک حرف بھی اس وقت تک لکھا نہیں کیا جاتا تھا جب تک اسے تمام صحابہ کرام پر پیش کرکے تصدیق نہیں کروالی جاتی تھی کہ یہ واقعی قرآن ہے، اس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی اور اسے عرضۂ اَخیرہ میں برقرار رکھا گیا ہے۔
چنانچہ ایسی کوئی چیز رقم نہیں کی گئی جس کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہو اور عرضۂ اَخیرہ کے وقت اسے باقی نہ رکھا گیاہو اور نہ ہی کسی ایسی چیز کو قرآنِ کریم میں جگہ دی گئی جو خبر واحد سے ثابت ہو یعنی اس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت نہ ہوسکا ہو۔ مثال کے طور پر وہ توضیحی اَقوال جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے ذاتی مصاحف میں کسی آیت یا کسی لفظ کی تشریح یا ناسخ و منسوخ کی وضاحت کے سلسلہ میں درج کرلئے تھے اُنہیں قرآن سے خارج رکھا گیا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے متعدد مصاحف رقم کروائے تھے ، جن کی تفصیل ہم آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ تمام بلادِاسلامیہ میں تمام صحابہ کرام کامجمع ومتفق علیہ مصحف روانہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ ان مصاحف کے رسم میں حذف و اثبات، اور حک واضافہ کے اعتبار سے کسی قدر فرق بھی تھا۔ بعض میں ایک حرف یا لفظ زائد تو بعض میں کم تھا۔ اس فرق کی وجہ یہ تھی کہ ان ساتوں حروف کا احاطہ ہوسکے جن پر قرآنِ کریم نازل ہوا تھا اور اسی غرض کے لئے ان مصاحف کو اِعراب اور نقطوں سے خالی رکھا گیا تھا۔ وہ کلمات جو ایک سے زائد قرائات پر مشتمل تھے اور اُنہیں نقطوں اور اعراب سے خالی رکھنے سے ان میں تمام قرائات سما سکتی تھیں ، ایسے کلمات کو تمام مصاحف میں ایک ہی رسم پر لکھا گیا۔
مثال کے طور پر ﴿فَتَبَیَّنُوْا﴾ اور ﴿نُنْشِزُھَا﴾ اور ﴿ھَیْتَ لَکَ﴾ اور ﴿أفٍّ﴾ وغیرہ۔باقی رہے وہ کلمات جو ایک سے زائد قراء ات پر مشتمل تھے، لیکن اُنہیں نقطوں اور اعراب سے خالی رکھنے کے باوجود بھی ان کا رسم زیادہ قراء توں کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا تو ایسے