کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 33
پھیل گئے تو مملکت اسلامیہ میں شامل ہر علاقہ کے لوگوں نے اپنے علاقہ کے مشہور قاری سے اس کی قراء ت کے مطابق قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ چنانچہ اہل شام اُبی بن کعب کی قراء ت پڑھتے تھے۔ اہل کوفہ عبداللہ بن مسعود کی قراء ت پڑھتے تھے اور دیگر لوگ حضرت ابوموسیٰ اشعری کی قراء ت کے مطابق پڑھتے تھے اور وجوہِ قراء ات میں ان کے درمیان اختلاف تھا۔ وجوہِ قراء ات میں اس اختلاف کی بنیاد یقینا یہی تھی کہ قرآنِ کریم کو اللہ کی طرف سے سات حروف پر نازل کیاگیا تھا جیساکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ (صحیح بخاری: ۲۴۱۹، دیکھئے ’محدث‘ میں شائع شدہ مضمون ج ۲۳/عدد ۴)
چنانچہ جب مختلف علاقوں کے لوگ کسی مجلس یا دشمنوں کے خلاف جہاد کے موقع پر جمع ہوتے اور قرائات کا یہ اختلاف سنتے تو اُنہیں سخت تعجب ہوتا۔ حتیٰ کہ اس کی وجہ سے لوگوں میں قراء تِ قرآنیہ کے متعلق باہم اختلاف اور جھگڑے شروع ہوگئے۔ ہر فریق اپنی قراء ت کو برحق اور دوسرے کی قراء ت کو غلط قرار دینے لگا۔ بعض فخریہ انداز میں اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہتر قرار دیتے۔ پھر مقابلہ میں وہ بھی یہی رویہ اختیار کرتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اختلاف اس حد تک بڑھ گیا کہ اُنہوں نے ایک دوسرے کو گنہگار کہنا شروع کردیا۔
اس اختلاف کی شدت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے دوسرے یا تیسرے سال ۲۵ہجری کوپیش آیا تھا۔ اور یہی واقعہ مصاحف کی تدوین کا باعث ہوا۔ واقعہ یہ ہوا کہ اہل عراق اور اہل شام آرمینیا اور آذربائیجان کے محاذ پر جہاد کے لئے جمع ہوئے۔ اہل علاقہ کے لشکر میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان بھی اس محاذ پر شریک ِجہاد تھے۔ وہاں اُنہوں نے دیکھا کہ مسلمان قراء توں کے بارے میں سخت اختلاف کررہے ہیں اور یہ بھی سنا کہ ہر فریق دوسرے کو ان وجوہِ قراء ات میں اختلاف کی وجہ سے گناہگار قرار دیتا اور اسے تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کو انتہائی سنگین سمجھا اور بھاگم بھاگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور اُنہیں اس صورتِ حال سے آگاہ کیا اور عرض کی: ((أدرک الناس قبل أن