کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 32
’’قرآنِ کریم کی کتابت قطعاً بدعت نہیں ہے۔ ‘‘
بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل قرآن مجید لکھا ہوا موجود تھا، لیکن چونکہ وہ مختلف چیزوں پربکھرا ہوا تھا لہٰذا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس بکھرے ہوئے مواد کو اسی ترتیب سے ایک جگہ جمع کرنے کا حکم دیا۔
قرآنِ مجید کے یہ صحیفے خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کے پاس رہے۔ ان کی وفات کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس منتقل کردیے گئے اور پھر ان کے دورِ خلافت میں اُنہیں کے پاس رہے۔ والدکی وفات کے بعد حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے۔ جب مروان مدینہ منورہ کا گورنر مقرر ہوا تو اُنہوں نے یہ صحیفے حضرت حفصہ سے طلب کئے لیکن اُنہوں نے دینے سے انکار کردیا۔ جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوگئی تو مروان ان کے جنازہ میں شریک ہوئے اور ان کے بھائی عبداللہ سے وہ صحیفے منگوائے اور اُنہیں نذرِ آتش کروا دیا اور کہا:
إنما فعلت ھذا لأن … فخشیت أن طال بالناس زمان أن یرتاب في شأن ھذہ الصحف مرتاب (المصاحف لابن ابی داود: ۱/۴۸)
’’میں نے یہ کام اس خدشہ کے پیش نظر انجام دیا کہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد کہیں کوئی شخص ان صحیفوں کے متعلق شک و شبہ کا شکارنہ ہو۔‘‘
یاد رہے کہ مروان بن حکم نے یہ کام اس وقت انجام دیا تھا جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے مصاحف ِعثمانیہ مدون ہوکر مختلف علاقوں کو روانہ کردیئے گئے تھے اور حضرت عثمان نے مصاحف کے علاوہ دیگر تمام صحیفوں اور مصاحف کو نذرِ آتش کروا دیا تھا جس کی تفصیل آئندہ سطور میں آرہی ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
وہ صحیفے جو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم سے مدوّن کئے تھے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز سے ہی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا اور مسلمان عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں میں