کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 31
ہے کہ سورئہ براء ۃ کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علاوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ، لیکن اس وقت اُنہیں درج نہیں کیا جب تک کہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی اور حفظ کے ساتھ کتابت کو ملحوظ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ زیادہ توثیق اور احتیاط کا اہتمام ہوسکے۔ کتابت ِ قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ نے یہ اہتمام بھی کیا کہ اس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔ عرضۂ اخیرہ کے وقت اسے باقی رکھا گیا ہو اور اس کی تلاوت منسوخ نہ ہوئی ہو۔ وہ اخبار آحاد سے ثابت نہ ہو اور نہ ہی وہ قرآنِ کریم کی کوئی شرح اور تاویل ہو اور اس کی سورتیں اور آیات دونوں مرتب ہوں ۔ اور اسے آیات اور سورتوں دونوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کردیا جائے۔ چنانچہ اس لائحہ عمل کے مطابق حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی زیر نگرانی حفاظ کے سینوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھے گئے صحائف سے قرآنِ کریم کی جمع وتدوین پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ دورِ صدیق میں قرآنِ کریم کی یہ جمع و تدوین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے قرآنِ کریم کو بکھرنے اور ضائع ہونے سے بچانے کا سامان کیا گیا۔ ان کے اس کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: أعظم الناس في المصاحف أجرا أبوبکر۔ رحمۃ اﷲ علی أبي بکر ھو أول من جمع کتاب اﷲ تعالیٰ (فتح الباری: ۱/۲۰) ’’مصاحف کے ضمن میں سب سے بڑھ کر اَجرو ثواب کے مستحق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ابوبکر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ اُنہوں نے کتاب اللہ کو جمع کرنے کااہتمام کیا۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس کام کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت صاف واضح ہوجاتی ہے کہ ان کا یہ کام بدعت یاخلافِ اسلام ہرگز نہیں تھا، بلکہ شریعت ِمطہرہ کے ان اُصولوں کے مطابق تھا جو کتابت ِ قرآن کے سلسلہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرما دیئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی کو لکھنے کے لئے کاتبین کی ایک جماعت کو مقرر کرنا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کام عین سنت کے مطابق تھا۔چنانچہ ابوعبداللہ المحاسبی فرماتے ہیں : کتابۃ القرآن لیست محدثۃ (البرہان: ۱/۲۳۸)