کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 30
شہادت مجھے کسی کے پاس لکھی ہوئی مل نہیں رہی تھیں جو ) بالآخر حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مل گئیں (اوراس طرح یہ مصحف مکمل ہوگیا) جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اور پھر حضرت حفصہ بنت ِعمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ ( رقم:۴۶۷۹،۴۹۸۶) صحیح بخاری کی یہ حدیث اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ مصحف کی شکل میں قرآنِ کریم پہلی دفعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع ہوا جو اس سے پہلے کھجور کی چھال اور پتھروں اور کتابت کے لئے رائج دیگر چیزوں پرلکھا ہوا موجود تھا اور اس کے ساتھ صحابہ کرام کے سینوں میں بھی محفوظ تھا اور اس کام کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق نے زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کو اس لئے متعین کیا کہ وہ اپنی جامع صفات کی وجہ سے اس کے لئے دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت زیادہ موزوں تھے۔ حضرت زید بن ثابت نے جمع قرآن کے سلسلہ میں دو مصادر پر اعتماد کیا: 1. جو قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مختلف چیزوں پر لکھا ہوا موجود تھا اور 2. جو حفاظ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لکھی ہوئی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کرتے تھے جب تک کہ حتمی توثیق نہ کرلیتے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور عرضۂ اَخیرہ کے وقت اسے ثابت رکھا گیا تھا اور ا س کی تلاوت منسوخ نہیں کی گئی۔ نیز اس وقت تک کوئی چیز قبول نہ کرتے جب تک دو صحابی گواہی نہ دے دیتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جو امام ابن ابی داؤد نے یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب کے حوالہ سے بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا:جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ کریم کا کوئی حصہ حاصل کیاہے، وہ اسے لے آئے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے اپنے اپنے صحیفے تیار کررکھے تھے اور وہ اُنہیں اس وقت تک قبول نہیں کرتے تھے جب تک کہ دو شخص ان کے بارے میں گواہی نہ دے دیتے۔ (المصاحف :۱/۳۷) امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مراد یہ ہے کہ یہ گواہی بھی لی جاتی تھی کہ لکھی ہوئی یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی۔ نیز حضرت زید رضی اللہ عنہ نے تنہا حفظ پر ہی اعتماد نہیں کیا، اس کی دلیل یہ