کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 3
اسلم نے اپنے فیصلہ میں یہ قرار دیا کہ الیکشن ۲۰۰۸ء میں دینی مدارس کی اسناد کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ایسے اُمیدوار الیکشن لڑنے کے سلسلے میں نااہل تصور ہوں گے۔ یاد رہے کہ گذشتہ انتخابات کے موقع پر ۲۵/ جولائی ۲۰۰۲ء کو ایک عدالتی فیصلہ کی رو سے دینی اسناد کے حامل اُمیدواروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تھی جس فیصلہ کو عدالت ِعالیہ نے اُسی الیکشن کے ساتھ مخصوص قرار دیتے ہوئے آئندہ انتخابات کے لئے ایسے اُمیدواروں کو نااہل قرار دیا۔
فاضل عدالت نے یہ قرار دیا کہ صرف ایسے اُمیدوار انتخابات لڑنے کے اہل ہیں جنہوں نے دینی اسناد کے ساتھ بی اے کی انگریزی اور ایک مضمون کا سرکاری امتحان بھی پاس کیا ہو۔ ‘‘
یاد رہے کہ گذشتہ ۵ سالوں میں ۶۴ ارکانِ اسمبلی انہی دینی اسناد کی بنا پر منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے تھے لیکن حالیہ فیصلہ کے بعد اَب ایسے امیدوار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں رہے۔ دوبرس قبل ۲۰۰۵ء میں یونین کونسلوں کے انتخاب کے موقع پر سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہی مسئلہ پیش آیا تھا تو اس وقت دینی اسناد کے بارے میں سپریم کورٹ نے واضح موقف اختیار کرنے کی بجائے اس امر کا فیصلہ کیا تھا کہ دینی اسناد کے بی اے کے برابر ہونے کا فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ہوگا، اوروہ جس سند کو بی اے کے برابر قرار دے گا، اسی اُمیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی۔ اس اُصولی فیصلہ کے بعد ماہِ جون ۲۰۰۶ء کے وسط میں قومی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ضلع ژوب کے ناظم سمیت ۱۶/ ناظمین کو اُن کے عہدے سے صرف اس بنا پر ہٹا دیا گیا کہ ان کے پاس محض دینی تعلیم کی اَسناد تھیں اور جدید علوم کی سندیں موجود نہ تھیں ۔ ان ناظموں کی جگہ پر دوسرے نمبر پر آنے والے اُمیدواروں کو عہدۂ نظامت سپرد کردیا گیا۔ اب لاہور ہائیکورٹ کے اس واضح اور دوٹوک فیصلہ کے بعد عملاً دینی مدارس کی اسناد کی علمی حیثیت کو بالکل بے وقعت کر دیا گیا ہے۔
دینی جماعتوں کوالیکشن میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں ؟ اس بارے میں مختلف آرا ہوسکتی ہیں ۔ موجودہ سیاسی عمل کی اسلام میں کس حد تک گنجائش ہے اوراس میں اہل دین کی شرکت سے اسلام کو فائدہ پہنچتا ہے یا نقصان؟ اس بارے میں بھی مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔ لیکن جو چیزایک نمایاں مظہرکے طورپرسامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ قومی سطح پر وطن عزیز میں دینی