کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 28
نہیں ہوا تھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے شدید حریص ہونے کے ناطے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں سرمو اِنحراف نہیں کرسکتے تھے،لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے طویل مذاکرات کے بعد، وہ ان کی رائے کے قائل ہوگئے۔ جمع قرآن کی مصلحت ان کے سامنے واضح ہوگئی اور وہ جان گئے کہ حفاظت ِقرآن کے لئے قرآنِ کریم کو جمع کرنے کا یہ اقدام انتہائی ضروری ہے، لہٰذا اُنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کرلیا اور دیگر اہم معاملات کی طرح اس عظیم معاملہ سے بھی وہ نہایت کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے۔
چنانچہ اس کام کے لئے صحابہ کی باہم مشاورت سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب ہوا ۔ بڑی عمر کے قدیم الاسلام اور جلیل القدر صحابہ کی موجودگی کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت کو اس لئے ترجیح دی کہ وہ ان مشہور صحابہ میں سے تھے جو قرآنِ کریم کے پختہ حافظ، ماہر قاری، اس کے حروف کے شناور اور اعراب القرآن و لغات القرآن کے جید عالم تھے اور وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھنے پر مامور رہے۔ نیز وہ جبریل علیہ السلام امین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور ِقرآنی میں بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ وہ نہایت عقل مند اور ذہین ، زہدو ورع کے پیکر، مجسمۂ دین و عدالت، قرآن کے امین اور اپنے دین و اخلاق کے حوالے سے بے عیب تھے۔ اس طرح ان میں بیک وقت ایسی خوبیاں اور خصوصیات جمع ہوگئیں تھیں جو بعض کبار صحابہ میں بھی یکجا نہیں تھیں ۔یہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس عظیم کام کے لئے ان کا انتخاب کیا۔
جب وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اُنہوں نے جمع قرآن کا یہ منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ میں نے اس عظیم کام کی انجام دہی کے لئے آپ کا نام تجویز کیا ہے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس میں تردّد ہوا لیکن بالآخر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بحث و تمحیص کے بعد دونوں بزرگوں کی رائے اور اس کی اہمیت کے قائل ہوگئے اور پھر اُنہوں نے اس مقدس کام کا آغاز کردیا۔
اُنہوں نے جس جس صحابی کے پاس قرآن کریم کا کوئی مجموعہ موجود تھا، اسے حاصل کیا۔ کھجور کی چھال، پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کریم کو مدوّن کرنا شروع کیا اور صرف