کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 27
کریم کے حافظ تھے ۔ مہاجرین صحابہ کرام میں خلفاے اربعہ، طلحہ، سعد، حذیفہ بن یمان، سالم مولیٰ ابی حذیفہ، ابوہریرہ، ابن عمر، ابن عباس، عمرو بن العاص، ان کے بیٹے عبداللہ، معاویہ، ابن زبیر، عبداللہ بن سائب، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حفصہ، حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو مکمل قرآنِ کریم حفظ تھا۔ اور انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم میں اُبی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، ابودردائ، مجمع ابن حارثہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم اور دیگر متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حافظ قرآن تھے۔
جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت ِقرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بخوبی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مکمل قرآنِ کریم لکھا گیا،اگرچہ پتھروں ، کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر ہی سہی، لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قرآنِ کریم اکثر صحابہ کے سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیا پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا۔
جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے __جو سب سے بڑھ کر منصب ِخلافت کے مستحق تھے __ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیعت کے ساتھ مسند ِخلافت پر قدم رکھا تو ایک بہت بڑے واقعہ نے اُنہیں قرآنِ کریم کو مصحف کی شکل میں جمع کرنے پر آمادہ کیا کیونکہ اس واقعہ سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ قرآنِ کریم کہیں ضائع نہ ہوجائے۔ واقعہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب اور دیگر مرتدینِ اسلام سے مسلمانوں کی جنگ چھڑ چکی تھی اور یہ ایک بہت بڑی جنگ تھی۔ ایک طرف مرتدین تھے اور ان کے مقابلے میں تمام اُمت مسلمہ برسرپیکارتھی۔تاریخ میں اس لڑائی کو ’جنگ ِیمامہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد شہید ہوگئی۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ پہنچی تو حضرت عمرؓبن خطاب سخت غمناکی کے عالم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور اُنہیں معاملہ کی سنگینی سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر قراء صحابہ اسی طرح شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ قرآنِ کریم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔ لہٰذا اُنہوں نے قرآنِ کریم کو مدوّن کرنے کی تجویز پیش کی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کو پہلے تو اس کام میں تردّد ہوا کہ یہ ایک نیا کام تھا جو دور ِنبوت میں