کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 26
حذف و اضافہ کا امکان بھی باقی نہ رہا تو اللہ نے خلفاے راشدین کے دل میں قرآنِ کریم کو ایک مقام پر مصحف کی شکل میں جمع کرنے کی بات ڈال دی تاکہ اس اُمت سے قرآن کی حفاظت کا کیا ہوا سچا وعدہ پورا ہوسکے۔ چنانچہ اس مبارک کام کا آغاز حضرت عمر رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی باہم مشاورت سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہواجس کی تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی جارہی ہے۔
دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن مجید کی حفاظت کے لئے کتابت اور حفظ کے ساتھ ساتھ مزید اہتمام یہ بھی تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہِ رمضان میں جبریلِ امین کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور کرتے یعنی اُن سے سنتے اور اُنہیں سناتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر آخرت اختیار کیا، اس سال دو دفعہ قرآن کریم کا دور کیا۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ بات کہی کہ جبریل امین میرے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور کرتے تھے، لیکن اس سال مجھ سے دو دفعہ دور کیا ہے،لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ (رقم:۱۶۲۱)
الغرض قرآنِ کریم دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مکمل طور پر لکھا ہوا موجود تھا، لیکن وہ سورتوں کی ترتیب کے ساتھ باقاعدہ مصحف کی شکل میں نہیں بلکہ کھجور کی چھال اور ہڈیوں وغیرہ پر بکھرا ہوا تھا اور اس کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں بھی محفوظ تھا۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم وہ تھے جنہیں ہمہ وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ میسر ہونے کی وجہ سے مکمل قرآن مجید یاد تھا مثلاً خلفاے اربعہ اور دیگر متعدد صحابہ کرام جبکہ بعض وہ تھے جنہیں قرآنِ مجید کا اکثر حصہ یاد تھا اور بعض کو قرآن کا کچھ حصہ یاد تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع قرآن اور اس کے اسباب
عربی زبان میں ’جمع القرآن‘ کالفظ دو معانی میں استعمال ہوتا ہے:
1. زبانی حفظ کے معنی میں 2. کتابت اور تدوین کے معنی میں
اور حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت ِقرآن کا انتظام ہوا۔ جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور قرآنِ کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحاتِ قلب پر نقش تھا۔ نیز آپ کے دور میں متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم قرآنِ