کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 24
اس میں حسن اور تنوع پیدا کرنے کے لئے تکالیف اُٹھائیں ، اسے پروان چڑھانے اور خوبصورت بنانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سعی کی یہاں تک کہ یہ فن یکسانیت اور خوبصورتی اور صفائی میں اپنی انتہا تک پہنچ گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کتابت ِقرآن اور اسے لکھنے والے مشہور صحابہ رضی اللہ عنہم
یہ حکمت ِ الٰہی کا تقاضا تھا کہ اس نے دیگر آسمانی کتب کی طرح قرآنِ کریم کو ایک ہی دفعہ نازل نہیں کیا بلکہ حالات کے مطابق اسے تھوڑا تھوڑا نازل کیا جاتا رہا، کیونکہ اسی میں عظیم حکمتیں اور بے شمار مصلحتیں کارفرما تھیں ۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں :
٭ ان میں سے ایک حکمت یہ تھی کہ قرآنِ کریم ان حالات کے مطابق نازل ہورہا تھا جو عہد ِنبوت میں پیش آتے رہے ، جو بھی معاملہ پیش آتا اس کے متعلق آیاتِ قرآنی کا نزول ہوتا اور اس کے متعلق اللہ کا حکم واضح کردیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی طرف سے جو سوالات کئے جاتے،ان کے مطابق جواب کے طور پر آیاتِ قرآنی نازل کردی جاتی تھیں ۔ اسلام دشمن عناصر کے دلوں میں جو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ،ان کے جواب کے لئے قطعی دلائل پر مبنی آیاتِ قرآنیہ نازل ہوتیں اور مسلمانوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے عقائد، شرائع واحکام اور فضائل کے متعلق آیاتِ قرآنی کا نزول ہوتا تھا۔
٭ اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ قرآنِ مجیدکا چیلنج اور اعجاز زیادہ بلیغ اور نمایاں انداز میں دنیا کے سامنے آجائے۔
٭ اُمت کی دینی اور اخلاقی تربیت ایک ترتیب اور تدریج کے ساتھ اس طرح کی جائے کہ وہ اللہ کی زمین پر خلافت کا منصب سنبھالنے کے لئے تیار ہوسکے۔
٭ قرآنِ کریم کو حفظ کرنے، اسے سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنے میں آسانی رہے۔
٭ اور ایک اہم حکمت یہ تھی کہ نزاعات اور کفار کی طرف سے زبردست مخالفت کے موقعوں پر قرآنِ مجید کا نزول آپ کے لئے تسلی اور سہارے کا باعث بن جائے اور رنج و اَلم کی وہ کیفیت رفع ہوجائے جو قوم کے راہِ راست سے دوری کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہوتی تھی۔