کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 23
اور اس وقت کاتبینِ عرب کے ہاں یہی رسم الخط متداول اور رائج تھا۔ اسی رسم الخط میں وہ اپنے خطوط اور اشعار وغیرہ لکھا کرتے تھے۔ جب اسلام دنیا کے نقشہ پر ظاہر ہوا تو اس نے کتابت وحی کے لئے اسی رسم الخط کو اختیار کیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے صحیفے اور اس کے بعد مصاحف ِعثمانیہ اسی رسم الخط میں تحریر کئے گئے تھے۔ اور یہی رسم الخط ایک عرصہ لوگوں کے درمیان مسلسل متداول رہا جس میں وہ مصاحف اور احادیث کی کتابت کیا کرتے تھے۔
پھر جب فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا، بہت سے نئے شہر آباد ہو گئے تو اسی دوران کوفہ سے فن خطاطی کے ماہرین کی ایک جماعت مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہوئی جہاں اُنہیں عربی رسم الخط کو خوبصورت اور عمدہ بنانے کا کام سونپ دیا گیا ۔اس کے بعد ایک وقت آیا کہ اہل کوفہ کا یہ خط اپنی طرز و صورت میں خط ِحجازی سے بازی لے گیا۔ اسی وقت سے اس خط ِحجازی کو خط کوفی سے موسوم کردیا گیا۔ اس کے بعد مصاحف اور احادیث اسی خط میں لکھے جانے لگے۔
مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ یہ خط ماہرین ِفن کے ہاتھوں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ حتی کہ قطبہ محرر، ضحاک بن عجلان اور اسحق بن حماد جیسے فن خطاطی کے ماہرین نے اس خط کے حسن کو کمال تک پہنچا دیا۔ قطبہ نے خط ِکوفی اور حجازی کو ملا کر ایک نیا خط تخلیق کیا۔ اس وقت جو خط رائج ہے، اس کی اساس یہی خط ہے۔
پھر عباسی دورِ حکومت میں دیگر فنی علوم کے ساتھ ساتھ عربی خط میں بھی ارتقا ہوا۔ عباسیوں کے سنہری دورِ حکومت کے ایک نامور وزیر ابوعلی محمد بن مقلہ نے اپنی بے پناہ ذہانت اور کمالِ مہارت سے قطبہ کے کام کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ عربی کتابت کو خط ِکوفی سے موجودہ شکل میں لا نے کے لئے اس نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کو صرف کیا۔ اس نے عربی کتابت کی بے شمار شکلیں اور ایک ایک شکل کی کئی کئی صورتیں اورفروعات ایجاد کیں ۔
اس کے بعد جوابن بواب علی بن ہلال بغدادی نے ابن مقلہ کے منہج پر اس کام کو آگے بڑھایا۔ ابن مقلہ کے طریقۂ خطاطی کو اختیار کرتے ہوئے اس میں تہذیب و تنقیح کی، اس کے قواعد کو مکمل کیا۔ اس میں مزید نکھار اور حسن پیدا کیا اور اسے انتہائی کمال تک پہنچا دیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقہ میں علما اور خطاطوں نے خطاطی اور اِملا کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا،