کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 22
فن سیکھا۔ پھر ظہورِ اسلام سے قبل تک قبیلۂ قریش میں اس فن کے جاننے والوں میں برابر اضافہ ہوتا رہا۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ پہلی روایت کی رو سے عبداللہ بن جدعان حرب بن اُمیہ کے استاد قرار پاتے ہیں جبکہ دوسری روایت بشر بن عبدالملک کو حرب کا اُستاد بتاتی ہے۔ قطع نظر ا س سے کہ اس سلسلہ میں حرب بن اُمیہ کا استاد کون تھا، لیکن اتنی بات ظاہر ہے کہ جزیرۂ عرب میں ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک کتابت کے فن سے بہت تھوڑے افرادآشنا تھے ۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فن کتابت کی طرف بطورِ خاص توجہ دی، اسے سیکھنے کی ترغیب دلائی اور اس کی تعلیم کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب جنگ ِبدر میں قریش کو شکست ِفاش ہوئی اور ان کے ۷۰ سردار قیدی بنالئے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قید سے رہائی کے لئے مالی فدیہ عائد کردیا اور جو لوگ یہ فدیہ اَدا نہیں کرسکتے تھے ، ان میں سے کتابت کا فن جاننے والوں پر یہ شرط عائد کی گئی کہ اُنہیں اس وقت تک آزاد نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ ہر شخص مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا نہیں سکھا دیتا۔ اور اس کے ساتھ ہی مدینہ منورہ میں کتابت اور تعلیم و تعلّم کے میدان سج گئے پھر جوں جوں فتوحات کاسلسلہ بڑھا اور اسلام کا دائرہ وسیع ہوا ،اسی طرح کتابت اور تعلیم و تعلّم کایہ سلسلہ بھی وسعت پذیر ہوتا رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی وحی لکھنے پر مقرر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد چالیس ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلم حکمرانوں نے تمام بلادِ اسلامیہ میں کتابت اور تعلیم کی اشاعت میں کا رہائے نمایاں انجام دیئے تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ اسلام اور ذرائع ووسائل علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اُنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسانیت کو ترقی کے اَوجِ کمال پر فائز کرنے کے لئے تمام علمی اور عملی کاوشیں بروئے کار لاتا ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حرب بن اُمیہ نے جو رسم الخط سیکھا اور قریشیوں کو سکھایا تھا، وہ انباری حیری رسم الخط تھا جو حجاز میں منتقل ہونے کے بعد حجازی رسم الخط کے نام سے موسوم ہوا