کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 21
بن اُمیہ بن عبد ِشمس ہے جو صحابی ٔرسول ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا والد تھا۔ وہ تجارت کی غرض سے اکثر مختلف علاقوں کا سفر کرتا رہتا تھا۔ وہاں سے اس نے کتابت اور رسم الخط کا یہ فن سیکھا اور پھر قریشیوں کو سکھایا تو سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے مکہ میں رسم الخط کا آغاز ہوا۔ البتہ مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ حرب بن اُمیہ نے یہ فن کس سے سیکھا تھا؟ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے عبداللہ بن جدعان سے سیکھا تھا اور ایک روایت یہ ہے کہ بشر بن عبدالملک سے یہ فن حاصل کیا تھا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام دانی رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ زیاد بن اَنعم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے گرویانِ قریش! کیا آپ دورِ جاہلیت میں بھی یہ عربی رسم الخط لکھا کرتے تھے؟ اُنہوں نے کہا: ہاں ۔ میں نے پوچھا: تمہیں یہ کتابت کس نے سکھائی تھی؟ فرمایا: حرب بن اُمیہ نے ۔ میں نے کہا: حرب بن اُمیہ نے کس سے سیکھی؟ فرمایا: عبداللہ بن جدعان سے۔ میں نے کہا: عبداللہ بن جدعان کو یہ فن کس نے سکھایا؟ فرمایا: اہل اَنبار نے۔ میں نے کہا: اہل اَنبار کو کس نے سکھایا تھا؟ فرمایا: یمن کے خاندان کِندۃ کا ایک شخص ان کے پاس اچانک آیا تھا۔ میں نے کہا: اس آنے والے کو کس نے سکھایا تھا۔ فرمایا: خلجان بن موہم نے جو اللہ کے نبی حضرت ہود علیہ السلام پر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہونے والی وحی لکھا کرتا تھا۔ کلبی نے عوانہ کے حوالہ سے بیان کیاہے کہ مرامر بن مرہّ، اسلم بن سدرہ اور عامر بن جدرہ نے سب سے پہلے ہمارے اس رسم الخط میں تحریر کا آغاز کیا تھا، اور یہ سب لوگ عرب کے قبیلہ طَے سے تعلق رکھتے تھے اور اُنہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کے کاتب ِوحی سے یہ فن سیکھا تھا۔ پھر اُنہوں نے اہل انبار کو یہ فن سکھایا اور ان کے توسط سے کتابت کا یہ فن عراق، حیرہ وغیرہ کے علاقوں میں پھیل گیا۔ وہاں صاحب ِدومۃ الجندل اُکیدر بن عبدالملک کے بھائی بشر بن عبدالملک نے کتابت سیکھی اور چونکہ حرب بن اُمیہ کا بلادِ عراق میں بغرضِ تجارت ان کے پاس آنا جانا تھا، لہٰذا حرب نے اُن سے کتابت کا فن سیکھا اور پھر قریشیوں کو اس کی تعلیم دی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ بشر نے حرب کے ساتھ مکہ کا سفر کیا اور وہیں مکہ میں ہی ابوسفیان کی بہن صہبا بنت ِحرب سے شادی کرلی ۔وہاں اہل مکہ کی ایک جماعت نے ان سے کتابت کا یہ