کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 20
تاریخ قرآن شیخ عبدالفتاح عبدالغنی القاضی مترجم : محمد اسلم صدیق المصحف الشریف ایک تاریخی جائزہ ظہورِ اسلام کے وقت اور اس کے بعد فن تحریر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ناخواندہ اور اَن پڑھ قوم میں مبعوث ہوئے جو من حیث القوم حساب وکتاب کی صلاحیت سے بے بہرہ اور رسم الخط و فن تحریر سے ناآشنا تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کچھ عرصہ پہلے پورے جزیرۂ عرب میں تھوڑی سی تعداد؛ قبیلہ قریش کے دس بارہ افراد اور اہل مدینہ کے آس پاس بسنے والے یہودیوں کی ایک محدود تعداد خط و کتابت سے واقف تھی۔ ان میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب، علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب، عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان، طلحہ رضی اللہ عنہ بن عبیداللہ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ بن حرب، معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ ، اُباب بن سعید رضی اللہ عنہ اور علا بن یزید حضرمی مکہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جبکہ مدینہ منورہ میں عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ ، اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، منذر بن عمرو رضی اللہ عنہ اور ایک یہودی تھا جو بچوں کو فن تحریر سکھایا کرتے تھے۔ جزیرۂ عرب کے کونہ کونہ میں کتابت کا انحصار اِن چند گنے چنے افراد پر تھا۔ پوری قوم عرب میں تعلیم کو اس قدر کمیابی کی بنیاد پر بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس لحاظ سے ایک اَن پڑھ قوم تھی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔ چنانچہ اسلام نے اپنے آغاز میں ہی ان پر اُمیت کی مہر تصدیق ثبت کردی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الأُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ﴾ ’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا،جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے،ان کی زندگی سنوارتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (الجمعہ:۲) مؤرخین کے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ کتابت اور رسم الخط میں قریشیوں کا اُستاد حرب