کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 19
صلاحیت سے مالا مال فرمائے۔
اس صورت ِحال میں اس امر کی شدیدضرورت ہے کہ علم کے حوالے سے حکومت کے مغربی نظامِ تعلیم کی سرپرستی کو موضوعِ بحث بنایا جائے تاکہ عوام بھی سمجھ سکیں کہ اصل مسئلہ علم کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ اصل سوال حکومت کا اسے سند ِقبولیت بخشنے کا ہے۔ ایک طرف قرآن اور فرما نِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم علم کس کو قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ہماری حکومتیں اسلامی نظریات کے برعکس صرف اسی کو عِلم قرار دینے پر مصر ہیں ، جس پر مغربیت کی چھاپ نمایاں ہو۔ ایک وہ علم ہے جو انسان کو دنیا گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، حقوق اللہ اورحقوق العباد بتاتا ہے او ردوسرا وہ علم ہے جس نے آج مغربی تہذیب کو قائم کرکے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی رحمہ اللہ نے اسی تعلیم کے بارے میں برسوں قبل کہا تھا :
ہم ان کل کتابوں کو قابل ضبطی سمجھتے ہیں جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اور علامہ اقبال رحمہ اللہ نے خواتین کے لئے اسی تعلیمِ افرنگ کی زہر ناکی کے بارے فرمایا تھا:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازَن کہتے ہیں ، اسی علم کو اربابِ ہنر’موت‘
آج مسلمانوں کے ذلت وپستی میں گرجانے اور اجتماعی میدانوں میں پیچھے رہ جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے سکیولر فلسفہ پر ایمان لاتے ہوئے زندگی کے اہم میدانوں میں اسلام کی تعلیم کو پس پشت ڈال کر مغرب کے ملحدانہ نظریات کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ آج ہماری مسلم یونیورسٹیوں میں بھی عین آکسفورڈ وکیمبرج کی طرح علومِ اسلامیہ کو بھی محض ’دینیات‘ کے ایک شعبے کے طور پر پڑھا پڑھایا جاتا ہے لیکن قانون، معیشت، سیاست اور ایجوکیشن کے میدان جن میں اسلامی ہدایات و خدمات اور شرعی اَحکام ومسائل کی لمبی چوڑی تفصیلات موجود ہیں ، لادین نظام تعلیم کے ہی سپرد کر دیے گئے ہیں ۔ معاشرتی میدانوں میں ترقی اور ملت کے اجتماعی احیا کے لئے انتہائی ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم یونیورسٹیوں میں اسلامی قانون، اسلامی معیشت، اسلامی سیاست اور اسلامی تعلیم وابلاغ کے شعبے خالص اسلامی نظریات کے تحت کام کریں جس میں کتاب وسنت کی بنیاد پر زندگی کے ان میدانوں میں اسلامی احکامات کی تعلیم دی جائے۔ یہی اسلام کا تقاضا ہے کہ اسے پورے دین کے طورپر اختیار کیا جائے وگرنہ اس کی برکات سے محرومی اور قوموں کی صف میں ذلت ہی ہمارا مقدر رہے گی…!
حافظ حسن مدنی (مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ، رحمانیہ)