کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 17
دیگر علوم کو دینی مقاصد کے تابع ہونے کی وجہ سے باعث ِثواب قرار دیا جاتا ہے۔ ہردو میں ایک توازن اور حفظ ِمراتب ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ اسلامی نقطہ نظرسے جس دین کی حفاظت اور فروغ کے لئے جدید علوم سیکھنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے اسی دین کی تعلیم وتعلّم کے ساتھ چند ممتاز لوگوں کو وابستہ ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجتے ہوئے اُنہیں نبوت ورسالت سے بھی سرفراز فرمایا کیونکہ مقصد ِحیات اور زندگی کو بسر کرنے کا طریقہ انسان کی اوّلین ضرورت ہے، اور یہی دین کا اصل موضوع ہے۔ اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ 1. دینی علوم کو دیگر علوم پر فضیلت ومرتبہ حاصل ہے اور مسلم معاشرے میں سب سے پہلے ان کے سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے کیونکہ انسان کی اوّلین ضرورت انہی سے وابستہ ہے۔ 2. معاشرے کی ضروریات کی تکمیل کیلئے دیگر علوم سیکھنے بھی ضروری ہیں ، لیکن ان علوم کے اہداف ومقاصد کا تعین لازماً اسلامی ہدایات کی روشنی میں ہی کیا جائے گا، میسر احکامات ورجحانات سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے گا اور حالات کے پیش نظر تمام علوم میں ایک توازن برقرار رکھا جائے گا۔موجودہ زمانے میں علومِ اسلامیہ کو ایک شعبہ میں محصور کرکے تمام دیگر علوم کو اسلامی رہنمائی سے محروم کردینا کسی طور درست نہیں ۔ 3. علوم کو دینی ودنیاوی میں بانٹنے کی بجائے مقاصد کے پیش نظر تقسیم کیا جائے، دینی علوم براہِ راست دین سے وابستہ ہونے کی بناپر زیادہ باعث ِثواب ہیں ، البتہ دینی مقاصد کے تحت سیکھے جانے والے علوم بھی نیک مقاصد کی وجہ سے عند اللہ اجر کے مستحق ہوں گے۔ محض دنیا کمانے اوراللہ کی یاد سے غافل کرنے والے علوم کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایک طرف تعلیم وتعلّم کے میدان میں قرآن وسنت کے نظریات یہ ہیں اوردوسری طرف ہمارے مسلمان اربابِ اختیار کی دانش وحکمت کا یہ حال ہے کہ وہ قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو علم سے ہی بے بہرہ خیال کرتے ہیں ۔ اور اُنہیں لاعلمی کے الزام میں عوام کی نمائندگی کے حق سے ہی برطرف کرنے کے احکامات صادر کرتے رہتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے حکمرانوں سے نجات دلائے جن کی عقل وفکر کے پیمانے مغرب سے مستعار لئے ہوئے ہیں اور جنہیں ’اسلام‘ کے نام کے علاوہ کسی اسلامی نظریے کی خبر تک نہیں !!