کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 16
دیکھنا چاہئے۔ مقاصد واہداف کی اہمیت اس قدر مسلم ہے کہ اس کی رو سے حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کا سریانی زبان سیکھنا بھی عظیم دینی خدمت قرار پاتا ہے اورغیرمسلموں (مستشرقین) کا اعتراض کی نیت سے قرآن وسنت سیکھنا بھی دین دشمنی بن جاتا ہے۔ ایسے ہی اسلام نے بھی دینی علم کو دنیاوی مفادات کے تحت سیکھنے پر سنگین وعید[1]سنائی ہے۔
اسلام نے کسی بھی مفیدعلم کو ناجائز قرار نہیں دیا۔ مسلم ذخیرئہ علم میں علوم کو دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے: ایک علم نافع اور دوسرا علم غیرنافع۔چنانچہ ہر وہ علم جو مسلمان کے عقیدہ وعمل کے اعتبار سے نفع بخش ہے، وہ سیکھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس کی غیر معمولی ترغیب بھی ملتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت سے دعاؤں میں جہاں علم نافع کی دعا فرمائی ہے، مثلاً ((اللہم إني أسئلک علمًا نافعا ورزقًا طیِّبًا وعَمَلاً مُّتقبَّلا))(سنن ابن ماجہ:۹۲۵،صحیح)وہاں غیرنافع علم سے اللہ کی پناہ بھی طلب کی ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لمبی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں :
((وأعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لایخشع …)) الخ
’’باری تعالیٰ! مجھے ایسے علم سے پناہ دینا جو نفع بخش نہ ہو اور ایسے دل سے عافیت دینا جو تیری خشیت سے خالی ہو۔الخ‘‘ (صحیح مسلم: ۴۸۹۹)
چنانچہ اسلام کا اپنے ماننے والوں سے جہاں یہ تقاضا ہے کہ وہ انسان کی اوّلین اور اساسی ضرورت یعنی ’مذہب‘کی تعلیم حاصل کریں ، وہاں مسلم معاشروں کی دیگر ضروریات کی تعلیم حاصل کرنا بھی فرضِ کفایہ ہے تاکہ معاشرہ مناسب طورپر ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھ سکے، مثلاًدفاع و تحفظ کے نقطہ نظر سے ان حربی میدانوں میں بھی سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنا اسلامی فریضہ ہے جس کے ذریعے اسلام کا دفاع کیا جاسکے اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے وسائل میسر آسکیں ۔
اس کے باوجود دینی علوم براہِ راست دین ہونے کے ناطے افضیلت رکھتے ہیں ۔ البتہ
[1] علم دین کو دنیاوی مقاصد کے تحت حاصل کرنا حرام ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((من طلب العلم لیُجاري بہ العلماء أو لیُماري بہ السفہاء أو یَصرفَ بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ ﷲ النار)) ’’جو شخص اسلئے علم سیکھتا ہے کہ علما میں اس کا شمار کیا جائے یا نادانوں کے ساتھ وہ بحث مباحثہ کرے اور لوگوں کے چہرے اپنی طرف پھیر کربلند مقام پائے تو اللہ اس کو آگ میں داخل کریں گے۔( ترمذی: ۲۶۵۴ ’حسن‘)
اس حدیث میں بھی علم کا غالب مصداق دینی علم کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے یا اس کو تمام علوم پر پھیلالیا جائے؟