کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 14
((طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم)) (سنن ابن ما جہ: ۲۲۰ ’صحیح‘ ) ’’ہرمسلمان پر علم سیکھنا فرض ہے۔‘‘ مذکورہ بالا آیات واحادیث کی روشنی میں ا س فرض علم کا تعین بھی بخوبی ہوجاتا ہے کہ ا س سے علم حقیقی یعنی علم دینی مراد ہے کیونکہ جہاں تک علومِ آلیہ ہیں ، مثلاً لکھنا پڑھنا یا جدید سائنسز مثلاً ریاضی، فزکس کیمسٹری وغیرہ تو وہ کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم نہیں [1] تھے۔ آج ہر سکول کے صدر دروازے پر یہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم توآویزاں نظر آتا ہے لیکن اس کے مفہوم پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس فرمان سے مراد سراسر دینی علم ہے کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس فرض علم کو حاصل کیا تھا، وگرنہ وہ سارے اس فرض علم کو ترک کرنے کی بنا پر گناہ گار ٹھہرتے اور خیرالقرون کا مصداق بننے سے بھی محروم رہتے۔اب غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے گنتی کے چند لوگ[2] تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، البتہ سب لوگ دین کا ضروری علم لازماً جانتے تھے۔اسی سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس حدیث ِمبارکہ کا مصداق کون سا علم ہے جو ہر مسلمان پر سیکھنا فرض ہے۔ آج بحیثیت ِقوم ہم مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی وجہ اپنے دین سے دوری اور اسلامی عقائد ونظریات سے لاعلمی ہے جس کے پس پردہ دراصل اس فرض تعلیم کو چھوڑنے بلکہ نظر انداز کرنے کی سنگین کوتاہی کارفرما ہے۔ ہر مسلمان پر کس قدر دینی علم فرض ہے؟اس کی تفصیل ہم آئندہ کسی مضمون میں مستقل طورپر زیر بحث لائیں گے۔ ان شاء اللہ
[1] علم کو لازماً لکھنے پڑھنے کے ساتھ مشروط سمجھناسطحی انداز ہے، کیونکہ بہت سے نابینا لوگ بھی لکھنے پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن وہ حافظ ِقرآن سے مفتی اعظم تک بنتے رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم علم وفضل میں بلند ترین شان رکھتے ہیں اور معلم انسانیت ہیں۔لیکن قرآنِ کریم کو کہیں سے نقل کر لانے کے اِلزام کا جڑ سے خاتمہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں سکھایا، یہی راجح مسلک ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ﴿ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْ مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتَابٍ وَلاَ تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکِ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ﴾ ’’اے نبی! اس سے قبل آپ کو لکھی چیز پڑھ نہیں سکتے تھے، نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے، مبادا یہ کہ آپ کو جھٹلانے والے شک وشبہ کا شکار نہ ہوجائیں۔‘‘ (العنکبوت، ۴۸) [2] دیکھئے اسی شمارہ میں شائع شدہ مضمون ’مصحف شریف ؛ ایک تاریخی جائزہ‘ کا صفحہ اوّل