کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 13
الملائکۃ لتضع أجنحتہا رضًا لطالب العلم وإن العالم لیستغفر لہ مَن في السموات ومن في الأرض حتی الحیتان في الماء وفضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر الکواکب)) (جامع ترمذی: ۲۶۸۲’صحیح‘) ’’جو شخص عِلم سیکھنے کے رستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے رستہ پر چلا دیتے ہیں اور طالب علم کے اعزاز واکرام میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اپنے پر بچھاتے ہیں ۔ اور عالم دین کے لئے اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں موجود ہر چیز استغفارکرتی ہے حتیٰ کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔ عالم کا کسی عبادت گزار سے مقام و مرتبہ میں وہی فرق ہے جیسے چاند تمام ستاروں میں نمایاں ہوتاہے۔‘‘ مذکورہ بالا احادیث کے مفہوم پر ذرا سا بھی غور کریں تو اس امرمیں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ کس علم سے جنت کا راستہ ہموار ہوتا اور کس علم کے لئے فرشتے اپنے پر فرشِ راہ کئے دیتے ہیں ۔ وہ علم جو اللہ کی بجائے دنیا پروری سکھائے او رمادّی منفعت کے پیش نظرسیکھا جائے، کیا یہ اس کے درجات وفضیلت کا بیان ہے یا اس علم کے درجات کا جو اللہ کی رضا، اس کی عبادت اور اس کی عطا کردہ رہنمائی کو سمجھنے کے لئے حاصل کیا جاتا ہو…؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ((من یُّرِدِ ﷲ بہ خیرًا یفقہہ في الدین)) (صحیح بخاری:۷۱،۳۱۱۶،۷۳۱۲) ’’جس سے اللہ خیرخواہی کا ارادہ فرماتے ہیں ، اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں ۔‘‘ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ اوراس کی فقاہت وعلم اللہ کا بہت بڑا احسان اور اس کی اپنی بارگاہ میں پسندیدگی کا نتیجہ ہے۔ایسے اہل علم کاتذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنی ذاتِ عزوجل اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہے: ﴿شَھِدَ ﷲُ اَنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآئِمًا بِالْقِسْطِ﴾ ’’اللہ نے خود بھی اس بات کی گواہی دی ہے کہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی گواہی دی ہے۔‘‘(آل عمران:۱۸) ٭ اسلام نہ صرف علم پرور اور علم دوست دین ہے، بلکہ ہرمسلمان پر علم سیکھنے کو فرض بھی قرار دیتا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :