کتاب: محدث شمارہ 317 - صفحہ 11
جس نے بادیہ نشین عرب کو دنیاکی قیادت وسیادت کا وارث بنادیا۔ اس تعلیم نے اُنہیں جہانبانی کے آداب بھی سکھائے اورایسا معاشرہ قائم کردیا کہ وہ پرسکون معاشرہ اور فلاحی ری است چودہ صدیوں کے بعد، ا س چکا چوند ترقی کے دور میں بھی ایک خواب نظرآتا ہے۔ وہ دور جب بندوں سے کوئی مانگنے والا نہ ملے اور ہر ایک کی ضروریات اس کی دہلیزپرپوری ہوتی ہوں ۔لیکن افسوس کہ اس تعلیم کی اہمیت سے بے بہرہ آج کے حکمران دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے اس علم کو ’علم‘ ہی تسلیم نہیں کرتے۔کیونکہ ان کی آنکھیں مغرب کی پرفریب ترقی نے خیرہ کررکھی ہیں جس کا ظاہر بڑا دل فریب اور دیدہ زیب لیکن اندر انسانیت سسکتی ہے اور فطری جذبے پامال کئے جاتے ہیں ؛ وہاں چین وسکون عنقا اور زندگی کی خوشیاں اور اطمینان گم کردہ متاع ہیں ۔ ایک اورفرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ (( وإِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ، وإِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَأوْرثُوا العِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ)) (سنن ابو داؤد: ۳۶۴۱ ’صحیح‘) ’’علما ہی انبیا کے وارث ہیں ۔ نبیوں نے اپنے پیچھے درہم ودینار کی وراثت نہیں چھوڑی، اُنہوں نے اپنے پیچھے علم چھوڑا ہے۔جس نے یہ عِلم سیکھا،گویا اس نے متاعِ گراں مایہ حاصل کی۔‘‘ اس حدیث ِنبوی میں علم کو انبیا کی وراثت قرار دیا گیا ہے، لیکن اس علم سے کون سا علم مراد ہے جو انبیا کی وراثت ہے؟ انبیا کی وراثت شریعت ِاسلامیہ کا علم ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو حاتم رضی اللہ عنہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : ’’في ہذا الحدیث بیان واضح أن العلماء الذین لہم الفضل الذي ذکرنا ٰہم الذین یعلمون علم النبي صلی اللہ علیہ وسلم دون غیرہ من سائر العلوم ألا تراہ یقول ((العلماء ورثۃ الأنبیائ)) والأنبیاء لم یورثوا إلا العلم وعلم نبینا صلی اللہ علیہ وسلم